قبیح روایات لایا اور جو اس قدر پستی میں گر چکا ہو اس کی وہ روایات ساقط اور مردود شمار ہوں گی جو اس نے اپنے خود ساختہ مذہب کی حمایت کے لیے وضع کر لی ہوں ۔ نیز بہتان تراشوں میں بھی واضح تناقض پایا جاتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا پیدا کردہ شبہ اور بہتان عقل و فکر میں صحیح نہیں ہو سکتا تو پھر وہ اس کا مخالف وضع کر لیتے ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے علی رضی اللہ عنہ پر خروج کیا اور ان کی بیعت نہیں کی، کیونکہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی حمایتی تھیں ۔ یہ اہل افتراء کے تناقضات کی مثال ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے لوگوں کو قتل عثمان پر ابھارا۔
تو دو متناقض یا دو ضدیں کیسے جمع ہوں گی کیا پہلے عائشہ رضی اللہ عنہا نے قتل عثمان پر لوگوں کو آمادہ کیا پھر عثمان کے قصاص کا مطالبہ کر ڈالا اور جس کسی انسان کے پاس اس بہتان کی سند پر نظر ڈالنے سے پہلے رتی بھر بھی عقل ہے تو وہ اس بہتان کو بہتان تراشنے والے کے سینے پر الٹا دے گا اور اس کے ضعف عقل کی دلیل بنا لے گا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کے دین کے ضعیف اور بودے پن پر دلالت کرے تو کوئی عقل مند انسان آج تک کسی فاسد عقل والے انسان کے خلاف ایسی دلیل نہیں لایا جیسی دلیلیں ان بہتان تراشوں کے عقل کے فاسد ہونے پر لائی گئی ہیں ۔
پانچواں بہتان:
اہل روافض کہتے ہیں کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے ماریہ قبطیہ پر زنا کی تہمت لگائی تب آیت افک نازل ہوئی۔‘‘ اس شبہ کو ثابت کرنے کے لیے شیعوں کے متعدد انداز ہیں :
پہلا انداز:
واقعہ افک میں شکوک و شبہات پیدا کرنا اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی آسمانی و قرآنی براء ت کا انکار کرنا۔ اکثر رافضیوں نے اس کا انکار کیا۔ وہ کہتے ہیں یہ اہل سنت کا قول ہے، چنانچہ ان کے نزدیک اہل سنت کی روایت مردود ہونے پر ان کا اجماع ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی خبر متناقض دو سندوں کے ساتھ ان کے ائمہ سے مروی ہو، اور ان دو سندوں میں سے ایک اہل سنت کے مذہب کے موافق ہو تو اس خبر کو چھوڑ دیا جائے گا جو اہل سنت کے مذہب کے موافق ہو۔ کیونکہ احتمال ہے کہ وہ تقیہ کی وجہ سے روایت کی گئی ہو۔ اسی بنیاد پر اکثر شیعہ سورۃ النور کی وہ آیات جو عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت میں نازل ہوئیں ان کو نہیں مانتے۔ کیونکہ یہ اہل سنت کا قول ہے۔ البتہ اہل تشیع کہتے ہیں کہ ’’جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے ماریہ قبطیہ پر زنا کی تہمت
|