اس حدیث کا ضعف اگرچہ ظاہر و باہر ہے تاہم مستدرک میں حاکم نے اپنے تساہل تصحیح کی وجہ سے اس پر سکوت اختیار کیا۔ اسی طرح مستدرک حاکم کی تلخیص میں ذہبی نے بھی اس پر سکوت کیا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے یہ حدیث اپنی مشہور کتاب ’’السلسلۃ الضعیفۃ‘‘ میں روایت کی اور کہا یہ بہت ضعیف ہے۔[1]
۲۔اصل حدیث صحیح و ثابت ہے لیکن اس میں یہ اضافی منکرات نہیں ہیں ۔ اس حدیث میں یہ اضافہ جات ابن ارقم نے کیے ہیں اور اگر یہ کسی بات کی دلیل ہو سکتی ہے تو صرف اس کی کہ اس کا حافظہ بگڑ چکا تھا یا یہ کہ اس نے جھوٹ پر اعتماد کرتے ہوئے اضافے کیے ہیں ۔ یہ سب اس نے صرف اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل کی وجہ سے کیا۔ پھر اس کے خواہش پسند پیروکار اسے دلیل بنا لیتے ہیں ۔
البتہ اس روایت منکرہ کا اصل متن صحیح مسلم میں ہے۔ چنانچہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم علیہ السلام کی ماں پر کسی آدمی کے ساتھ ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس مہم پر مامور کیا کہ تو جا اور اس کی گردن کاٹ کر لے آ۔ علی رضی اللہ عنہ اس کے پاس آئے تو وہ کنویں [2]میں غسل کر رہا تھا۔ علی رضی اللہ عنہ نے اسے کہا: جلدی باہر آ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کھینچ لیا۔ اچانک انھوں نے دیکھا کہ اس کا عضو تناسل کٹا ہوا تھا۔ یعنی اس کے پاس آلۂ تناسل نہیں تھا۔ علی رضی اللہ عنہ اس سے رک گئے۔ پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول ! اس کے پاس آلۂ تناسل نہیں ، بلکہ کٹا ہوا ہے۔[3]
تیسرا انداز:
صحیح نصوص میں من گھڑت اضافے شامل کر کے اپنے لگائے گئے بہتانات کی تکمیل کرنا۔
جن معاملات میں شیعوں کو مکر و فریب کی مہارت تامہ حاصل ہے۔ ایک یہ بھی ہے کہ وہ کوئی صحیح روایت لے کر اس میں ایسے اضافے شامل کر دیتے ہیں جن سے وہ پوری نص فاسد ہو جاتی ہے۔ اس سے ان کا مقصد اپنے جھوٹ، فریب اور مکر کی قبولیت ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ اپنی اس جھوٹی روایت کو اللہ تعالیٰ
|