دوسرا شبہ:
روافض کہتے ہیں :’’ بے شک عائشہ کے گھر سے فتنہ نکلا۔‘‘
اثنا عشریہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر فتنہ گری کا مرکز و محور تھا اور وہ ابن عمر رضی ا للہ عنہما کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں ان کے گمان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ فتنہ مشرق سے نکلے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
یہ حدیث کتب اہل السنہ میں دو قسم کے متون کے ساتھ وارد ہے:
۱۔صحیح بخاری میں سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا:
((ہُنَا الْفِتْنَۃُ ثَلَاثًا مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ)) [1]
’’یہاں فتنہ ہے جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔‘‘
۲۔دوسری روایت صحیح مسلم کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((رَاْسُ الْکُفْرِ مِنْ ہَاہُنَا مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ))
’’کفر کا سر یا سربراہ یہاں سے آئے گا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے، یعنی مشرق کی طرف سے۔‘‘[2]
رافضیوں نے اپنے گمان باطل کے مطابق اس عبارت سے استدلال کیا ہے ((فَاَشَارَ نَحْوَ مَسْکَنِ عَائِشَۃَ)) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ جو پہلی روایت میں ہے اور دوسری عبارت یوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کفر کا سر یہاں ہے۔ اہل روافض چاہتے ہیں کہ ان عبارات سے یہ نتیجہ نکالیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے فتنہ نکلے گا اور وہی رافضیوں کے کہنے کے مطابق مصدر و منبع فتنہ ہے۔[3]
|