طرح ہو۔‘‘
صحیحین میں سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث موجود ہے کہ
((اَنَّہٗ اَوْمَأَ اِلٰی اَبِیْ بَکْرٍ اَنْ یَتَقَدَّمَ فَیُصَلِّیَ بِہِمُ الصَّلَاۃَ الْاٰخِرَۃَ، الَّتِیْ ہِیَ آخِرُ صَلَاۃً صَلَّاہَا الْمُسْلِمُوْنَ فِیْ حَیَاۃِ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم )) [1]
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز کے لیے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا کہ وہ انھیں دوسری نماز پڑھائیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مسلمانوں نے آخری نماز پڑھی۔‘‘
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کی طرف اشارہ بھی کیا یا تو نماز میں یا نماز سے پہلے۔ معاملے کی ابتدا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف قاصد بھیجا جنھوں نے انھیں یہ حکم دیا۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں پہنچایا اور نہ ہی انھوں نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم آپ کو دیا ہے جیسا کہ گمراہ کن رافضی حضرات کا یہ کہنا ہے۔
بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ٹالنے کی کوشش کرتی رہیں اور وہ کوشش کرتی رہیں کہ نماز کی امامت ابوبکر کی بجائے کسی اور کو مل جائے۔ چنانچہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث موجود ہے کہ میں نے اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ وہ اپنے اس حکم پر نظرثانی کریں اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نظرثانی کرنے کے لیے بار بار صرف اس چیز نے آمادہ کیا کہ میں یہ نہیں چاہتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگ کسی بندے سے صرف اس لیے محبت کریں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام بنا تھا۔ وگرنہ میں یہ بھی جانتی تھی کہ جو آدمی بھی یہ فریضہ سرانجام دے گا لوگ اسے منحوس سمجھیں گے۔ اس لیے میں نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا یہ حکم ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہٹا کر کسی اور کو دے دیں ۔[2]
آٹھواں بہتان:
اہل روافض کا یہ کہنا کہ ’’عائشہ کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے پاس احسن طریقے سے رہنا نہ آ سکا اور وہ بسیار خور تھی۔‘‘
|