ضرور منع کرتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کیا گیا تھا۔‘‘[1]
اگرچہ یہ ایک جزوی واقعہ ہے لیکن یہ اس حقیقت کی دلیل ہے کہ روشن و محکم شریعت کے اکثر احکام ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نظر میں تھے اور انھیں بخوبی علم تھا کہ احکام شریعت حکمتوں اور اسباب پر مبنی ہوتے ہیں ۔ لہٰذا جب وہ اسباب اور حکمتیں تبدیل ہو جائیں تو شرعی احکام بھی تبدیل ہو جانے چاہئیں ۔
۲۔مکہ مکرمہ کی ایک وادی کا نام محصب ہے۔ حج کے ایام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں پڑاؤ کیا تھا۔ پھر آپ کے خلفائے راشدین نے بھی آپ کی اتباع میں وہاں پڑاؤ کیا اور سیّدنا ابن عمر رضی ا للہ عنہما کی رائے میں وادیٔ محصب میں پڑاؤ حج کی سنت ہے۔ لیکن سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اسے سنت نہیں مانتیں اور نہ ہی وہ حج کے دنوں میں وہاں پڑاؤ کرتی تھیں ۔ وہ کہتی تھیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو وہاں صرف اس لیے پڑاؤ کیا کہ وہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سے آپ کے لیے روانگی آسان تھی۔‘‘[2]
۳۔حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف اونٹ پر سوار ہو کر کیا۔ بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا کہ بیت اللہ کا طواف سوار ہو کر کرنا سنت ہے اور کچھ ائمہ مجتہدین کا بھی یہی مذہب ہے۔ لیکن بات اس طرح نہیں جیسے وہ کہتے ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سوار ہو کر طواف کرنا مصلحت، حکمت اور سبب کی وجہ سے تھا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :
’’حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا آپ رکن (حجر اسود و رکن یمانی) کا استلام کرتے تھے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو لوگوں کو اس سے ہٹا دئیے جانے کا خوف تھا۔‘‘[3]
اس کے علاوہ بھی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فقاہت کی مثالیں بیان کی جاتی ہیں ۔
پانچواں نکتہ:.... سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو علم التاریخ میں بھی رسوخ حاصل تھا
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عہد نبوت، عہد خلفائے راشدین اور سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بیشتر عہد دیکھا۔ نیز زمانہ جاہلیت میں عربوں کی باہمی جنگ و جدل، سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے
|