بطور امانت نہ پہنچانا اور مطلوبہ شخص کے علاوہ کسی اور کو اس منصب پر فائز کر دینا جس کا کوئی معنی تھا اور نہ کوئی سبب ۔ ہر وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اور اس کا عقیدہ راسخ ہو کہ سچا دین اسلام ہے، وہ اس افتراء کے بطلان کو بخوبی جانتا ہے کیونکہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء و رسل کے بعد تمام مخلوق سے بہترین لوگ ہیں اور ان کا زمانہ اس امت کا بہترین زمانہ تھا جو کہ نص قرآنی اور سلف و خلف کے اجماع کے مطابق تمام امتوں سے دنیا و آخرت میں افضل ہیں اور تمام تعریفات کے لائق و مستحق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔‘‘[1]
چھٹا بہتان:
اہل تشیع سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف قبیح الفاظ منسوب کرتے ہیں ۔ (ہم دل پر بوجھ محسوس کرتے ہوئے یہ روایت نقل کر رہے ہیں اور اللہ کے حضور معافی کے طلب گار ہیں )اس کے ثبوت کے لیے ان کی یہ روایت کافی ہے:
’’محمد بن جعفر رزاز ، محمد بن عیسیٰ سے، وہ اسحاق بن زید سے، وہ عبدالغفار بن قاسم سے، وہ عبداللہ بن شریک العامری سے، وہ جندب بن عبداللہ البجلی سے، وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے کہ میں حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ عائشہ کے گھر میں تھے۔ تو میں ان دونوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ عائشہ بولیں ! اے ابن ابی طالب! تجھے اپنے چوتڑ کے لیے میری ران کے علاوہ کوئی جگہ نہ ملی۔ مجھ سے دُور ہو جا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں کندھوں کے درمیان مار کر اسے کہا تو برباد ہو جائے، تو امیر المومنین، سیّد الوصیین، قائد غر محجلین (وضو کے اثر سے پانچ اعضاء چمکنے والوں کے راہنما) سے کیا چاہتی ہے؟‘‘[2]
اس بہتان کا جواب:
اس روایت کی اسناد میں عبداللہ بن شریک عامری ہے۔ محدثین کا اس کی تعدیل میں تو اختلاف ہے لیکن اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ غالی شیعہ تھا حتیٰ کہ جوزجانی نے اسے ’’کذاب‘‘ کہاہے۔ [3]
|