حافظ جورقانی[1]نے ابن ماجہ کی سند کے ساتھ اپنی کتاب ’’الاباطیل و المناکیر‘‘ میں روایت کی اور کہا یہ روایت باطل ہے اس سند میں محمد بن اسحق متفرد ہے اور وہ ضعیف الحدیث اور اس سند میں اضطراب بھی ہے۔[2]
بقول مصنف (سیرۃ عائشہ رضی اللہ عنہا ) اس اضطراب کی طرف حافظ ابو الحسن دارقطنی نے کتاب ’’العلل‘‘ میں اشارہ کیا ہے۔[3]
جبکہ حافظ ابو محمد بن حزم رحمہ اللہ تو اس سے بھی آگے نکل گئے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’کچھ لوگوں نے شدید غلطی کی اور ایسی روایات لائے جو ملحدین اور کاذبین نے وضع کیں ۔ ان میں سے پالتو بکرا وہ صحیفہ کھا گیا جس میں پڑھی جانے والی آیت تھی اور وہ پوری ضائع ہو گئی۔ اس شخص نے امہات المومنین کی بری تعریف کی اور انھیں اس جرم کا مجرم ٹھہرایا کہ ان کے گھروں میں جن آیات کی تلاوت کی جاتی تھی وہ اس کی حفاظت نہ کر سکیں ۔ یہاں تک کہ بکری نے کھا کر تلف کر دی۔ حالانکہ یہ ظاہری جھوٹ اور محال و ناممکن ہے، واضح ہو گیا کہ بکرے کے کھانے والی حدیث بہتان، کذب اور تہمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جو اس روایت کو جائز قرار دے گا اور جو اس کی تصدیق کرے گا۔‘‘[4]
بقول مصنّف: میں کہتا ہوں کہ فرض کر لیں یہ روایت اگر صحیح بھی ہو تو اس مفروضہ پر ابن قتیبہ نے ’’تاویل مختلف الحدیث‘‘ میں بحث کی ہے اور ہم نے طوالت کے اندیشے سے اسے ترک کیا ہے۔[5]
آٹھواں شبہ:
مردوں کے سامنے ایسی باتیں صراحت کے ساتھ کہنا جن کا کہنا قباحت سے خالی ہو جو کچھ عائشہ اور
|