خطیب نے اس کی سند محمد بن حسن بن حسین نوبختی تک پہنچائی ہے۔ [1]
اس نے کہا: ’’ابو الفرج اصبہانی سب سے بڑا جھوٹا ہے، وہ کتابوں کے بازار میں جاتا اور وہاں کتابوں سے بھری ہوئی دکانیں ہوتیں ، وہ وہاں سے بکثرت صحائف خریدتا اور اپنے گھر لاتا۔ پھر اس کی سب روایات ان صحائف سے ہوتیں ۔‘‘[2]
شاید یہ سند بھی انہی صحائف میں سے ہے۔ کیونکہ اس میں اسماعیل بن راشد اپنی سند کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتا ہے اور اسی اسماعیل کے متعلق کتب جرح و تعدیل میں کچھ نہیں ملتا اور نہ ہی یہ کسی کو معلوم ہے کہ وہ کب فوت ہوا ہے۔نہ یہ پتا ہے کہ اس کے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان کتنے راوی ہیں ، پھر اس سے روایت کرنے والا راوی عثمان بن عبدالرحمن طرائفی ہے۔ یہ صدوق ہے اس کی اکثر روایات ضعفاء اور مجہول راویوں سے ہوتی ہیں ، اسی لیے اسے ضعیف کہا گیا، حتیٰ کہ ابن نمیر نے اس کی نسبت کذب کی طرف کر دی ہے۔[3]
اصبہانی نے یہ تدلیس کی ہے کہ اس نے عثمان بن عبدالرحمن کی کنیت بیان نہیں کی تاکہ اسے پہچانا نہ جا سکے اور تاکہ یہ گمان کیا جائے کہ وہ کوئی ثقہ راوی ہے۔ کیونکہ متعدد ثقات راوی اس نام میں مشترک ہیں اور جب طرائفی اور اسماعیل بن راشد کے اساتذہ اور شاگردوں کے متعلق تحقیق کی گئی تو یہ امر موکد ہو گیا کہ یہ طرائفی ہی ہے اور سند کے ردّ کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ طرائفی سند میں موجود ہے۔
دوسرا شبہ:
اہل تشیع کا یہ کہنا کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو محروم کر دیا۔‘‘
اہل روافض کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا حالانکہ اس نے خود روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مورث نہیں بنائے جائیں گے اور اس نے اس روایت کو دلیل بناتے ہوئے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے محروم کر دیا اور شیعہ مفید کی روایت کو دلیل بناتے ہیں کہ مجھے ابو الحسن علی بن محمد الکاتب نے حدیث بیان کی، اس نے کہا: مجھے حسن بن علی زعفرانی نے حدیث سنائی،
|