نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کے بعد بھی پڑھی جاتی رہیں ۔
علامہ سندھی رحمہ اللہ نے کہا:
’’عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ قرآن کی یہ آیات میرے بستر کے نیچے لکھی ہوئی موجود تھیں جبکہ ان کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی۔ اس سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ مراد نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پڑھی جاتی تھیں ۔‘‘[1]
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے لکھا:
’’ان آیات کی تلاوت منسوخ ہونا صحیح ہے اور صحیفہ میں لکھی ہوئی آیات ان کے پاس تھیں ، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اسے بکری کھا گئی۔ جبکہ اس کی کسی کو ضرورت نہ تھی اور اس کی دلیل یہ ہے ، جیسا کہ ہم تحریر کر آئے ہیں کہ صحابہ نے قرآن یاد کر لیا تھا اور اگر وہ قرآن میں ثابت ہوتیں تو بکری کے کھانے کی وجہ سے وہ اپنے حفظ سے ان آیات کو قرآن میں لکھ دیتے۔‘‘[2]
کتب شیعہ میں بھی موجود ہے کہ ’’آیت الرجم کی تلاوت منسوخ ہے۔‘‘[3]
۴۔بقول شیعہ ’’عائشہ نے کہا: آیت اسی طرح اتری لیکن حروف میں ردّ و بدل کر دیا گیا‘‘:
عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت کس طرح پڑھتے تھے؟
﴿ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا ﴾ یا ﴿ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا ﴾ (المومنون: ۶۰)
’’اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں ۔‘‘
انھوں نے کہا: ’’تجھے ان دونوں میں سے کون سی تلاوت پسند ہے؟ میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ان دونوں میں سے ایک مجھے سب دنیا سے زیادہ محبوب ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: کون سی ایک؟ میں نے کہا: ﴿ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا ﴾ وہ کہنے لگیں : میں گواہی
|