دوسرا مبحث:
وہ الزامات
جن کا تعلق اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ہے
پہلا بہتان:
روافض کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حسن بن علی رضی ا للہ عنہما کی وفات کے وقت اسے اس کے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفن ہونے کی اجازت نہ دی۔ کیونکہ وہ حسن کے ساتھ بغض رکھتی تھی اور تمام اہل بیت کے ساتھ عداوت بھی۔
چنانچہ کلینی نے الکافی میں اپنی سند کے ساتھ محمد بن مسلم سے روایت کی ہے کہ میں نے ابوجعفر علیہ السلام کو کہتے ہوئے سنا: جب حسن بن علی رضی ا للہ عنہما کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے حسین علیہ السلام سے کہا: اے میرے بھائی! میں تمھیں ایک وصیت کرتا ہوں تم اسے یاد کر لو۔ جب میں مر جاؤں تو تم مجھے غسل کفن دے کر تیار کرنا، پھر تم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے جانا تاکہ ان کے ساتھ کیا ہوا میرا ایک وعدہ پورا ہو جائے۔ پھر تم مجھے میری امی رحمہ اللہ کے پاس لے جانا، پھر تم مجھے لوٹا کر ’’بقیع‘‘ میں دفن کر دینا اور تمھیں علم ہونا چاہیے کہ میرے ساتھ عائشہ وہی سلوک کرے گی جس کا لوگوں کو اس کے متعلق علم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی دشمن ہے اور ہم اہل بیت کے ساتھ بھی اس کی کھلم کھلی عداوت ہے۔
جب حسن علیہ السلام کی روح قبض ہو گئی اور چارپائی پر ان کا جسد اطہر رکھ دیا گیا تو لوگ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ جنازہ گاہ کی طرف لے گئے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نماز جنازہ پڑھایا کرتے تھے۔ وہاں جا کر حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھائی ، پھر ان کی چارپائی اٹھا کر مسجد نبوی میں لائی گئی۔ جب ان کی چارپائی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس رکھا گیا تو چھوٹی چھوٹی آنکھوں والا ایک شخص عائشہ کی طرف گیا اور اسے بتایا کہ لوگوں نے حسن کا جنازہ اٹھایا ہوا ہے تاکہ وہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن کر دیں ۔ تو عائشہ یہ خبر سن کر ایک زین پہنائے خچر پر سوار ہو کر آ گئیں اور وہ پہلی مسلمان عورت ہے جو زین پر سوار ہوئی۔ اس نے کہا: تم اپنے بیٹے کو میرے گھر سے دُور لے جاؤ، کیونکہ اسے میرے گھر میں نہیں دفنایا جائے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجاب پھاڑ دے۔
|