Maktaba Wahhabi

595 - 677
پر مرہم رکھیں ۔‘‘[1] ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ان کا مقصد قتال نہ تھا، لیکن جب جنگ نے اپنے خونخوار پنجے گاڑ دئیے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھیوں کے لیے قتال کے بغیر کوئی چارہ نہ رہا اور ان کے ساتھیوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے ان کی خلافت میں کوئی نزاع پیدا کیا اور نہ ہی انھوں نے کسی کو خلافت کا منصب سنبھالنے کی دعوت دی۔ بلکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھ جو لوگ تھے انھوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس رویے کا انکار کیا جو انھوں نے قاتلین عثمان سے قصاص نہ لے کر ظاہر کیا تھا اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ورثاء سے یہ امید کرتے تھے کہ وہ اس کے پاس یہ مقدمہ لے کر آئیں ، تو جب کسی شخص معین کے بارے میں ثابت ہو جائے گا کہ وہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک ہے تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھیوں کا اس طریقہ کار سے اختلاف تھا۔ جن لوگوں پر قتل عثمان کا الزام تھا وہ اس بات سے ڈر گئے کہ اگر عائشہ رضی اللہ عنہا اور علی کے درمیان صلح ہو گئی تو انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ لہٰذا انھوں نے سب مسلمانوں کو جنگ میں الجھا دیا۔ بالآخر جو نتیجہ نکلا سو نکلا۔‘‘[2] اہل تشیع یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ’’جاننے کے باوجود عائشہ رضی اللہ عنہا نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کر کے کفر کا ارتکاب کیا۔‘‘ چنانچہ حدیث میں ہے: ’’اے علی! میری جنگ تمہاری جنگ ہے اور میرا امن تمہارا امن ہے۔‘‘ اور دوسری حدیث ہے: ((لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا، یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ)) ’’میرے بعد تم دوبارہ کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ۔‘‘[3] پہلی حدیث کا جواب: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
Flag Counter