پوچھا: کون دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے؟ میں نے بتایا کہ میں علی ہوں ۔ اس نے کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہیں ۔ میں واپس چلا گیا۔ میں نے جب کچھ رستہ طے کر لیا تو میں نے سوچا عائشہ گھر میں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہیں یہ ناممکن ہے۔ میں دوبارہ آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا، اس نے مجھ سے پوچھا : دروازے پر کون ہے؟ میں نے بتایا کہ میں علی ہوں ۔ اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام کر رہے ہیں ۔ میں شرماتے ہوئے واپس چل پڑا۔ جب میں اس جگہ پر پہنچا جہاں سے پہلے واپس ہوا میرے دل سے صبر جاتا رہا اور میں سوچنے لگا کہ عائشہ گھر پر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کوئی کام کر رہے ہیں ؟ چنانچہ میں واپس آ گیا اور اتنے زور سے دروازہ پیٹا کہ آپ نے بھی سن لیا۔ میں نے آپ کی آواز سن لی جب آپ اسے کہہ رہے تھے کہ علی کو آنے دے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ یہ کام اسی طرح ہو گا۔ اس کی اور کوئی صورت نہیں ۔ اے حمیراء! تجھے اس فعل پر کس نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میری تمنا تھی کہ کاش! میرے والد محترم آ کر آپ کے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: تیرے اور علی کے درمیان کینے[1] کا یہ پہلا مظاہرہ نہیں اور بے شک میں جانتا ہوں علی کے متعلق تیرے دل میں جو کچھ ہے۔‘‘[2]
اس قصے کا جواب:
یہ قصہ جھوٹ کا پلندہ ہے اور روایت مشہور یہ ہے کہ علی کو اندر آنے سے روکنے والا خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،انس رضی اللہ عنہ تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے نہیں روکا تھا۔ کیونکہ انس رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ کوئی انصاری آئے (اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ پرندہ کھائے) یہ الفاظ شیعہ کی اپنی روایات میں موجود ہیں ۔ اگرچہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی یہ حدیث صحیح ثابت نہیں ۔
چنانچہ خلیلی[3]نے لکھا ہے:
|