’’عائشہ کے آزاد کردہ ابو یونس سے روایت ہے کہ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس کے لیے مصحف (قرآن) لکھوں اور اس نے کہا: جب تم اس آیت پر پہنچو: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى ﴾ (البقرۃ: ۲۳۸) تو مجھے اطلاع دینا۔ جب میں اس آیت پر پہنچا تو میں نے اسے اطلاع دی۔ اس نے مجھے آیت یوں املاء کروائی: حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی و صلاۃ العصر و قوموا للّٰہ قانتین۔ عائشہ نے کہا:’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنی۔‘‘[1]
شیعہ کہتے ہیں : ’’قرآن میں یہ دو الفاظ موجود نہیں :.... ’’و صلاۃ العصر‘‘۔
اس شبہ کا جواب:
یہ شاذ قراء ت ہے اور شاذ قراء ت حجت نہیں اور نہ ہی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی خبر کہا جاتا ہے، کیونکہ اسے نقل کرنے والے نے تو قرآن سمجھ کر اسے نقل کیا لیکن قرآن تواتر اور اجماع کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔[2]
صحیح مسلم میں اس حدیث کے بعد آنے والی حدیث میں وضاحت ہے کہ درج بالا آیت کی تلاوت منسوخ ہے۔
سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی ((حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ العصر)) تو ہم اسے ایسے ہی پڑھتے رہے جب تک اللہ نے چاہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کر دیا، تب یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلّٰهِ قَانِتِينَ﴾ (البقرۃ: ۲۳۸)
’’سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو۔‘‘
تو ایک آدمی وہاں جو اپنے بھائی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے کہا گویا وہ نماز عصر ہی ہے۔ براء نے کہا: میں نے تجھے آیت کے نزول اور نسخ کی کیفیت بیان کی اور حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔[3]
|