دوسرا مبحث:
دعوت الی اللہ کے لیے ان کے اسالیب
۱۔ اسلوب حکمت:
دعوت میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حکمت کو اولیت دیتی تھیں ۔ وہ اللہ عزوجل کے اس فرمان پر عمل کرنا چاہتیں :
﴿ ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ﴾ (النحل: ۱۲۵)
’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ بلا۔‘‘
اس طریقے کا علم انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عملی طور پر حاصل کیا۔ چنانچہ وہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے انھیں فرمایا:
((لَوْلَا اَنَّ قَوْمَکَ حَدِیْثُ عَہْدٍ بِجَاہِلِیَّۃٍ لَاَمَرْتُ بِالْبَیْتِ فَہُدِمَ، فَاَدْخَلْتُ فِیْہِ مَا اُخْرِجَ مِنْہُ، وَ اَلْزَقْتُہٗ بِالْاَرْضِ، وَ جَعَلْتُ لَہٗ بَابَیْنِ، بَابًا شَرْقِیًّا وَ بَابًا غَرْبِیًّا))
’’اے عائشہ! اگر تمہاری قوم جاہلیت سے نئی نئی مسلمان ہوئی ہوتی تو میں ضرور حکم دیتا کہ بیت اللہ گرا دیا جائے تو جو حصہ اس سے نکال دیا گیا میں اس میں شامل کر دیتا اور اس کے دروازے کو زمین کے ساتھ لگا دیتا اور اس کے دو دروازے بناتا ایک مشرقی دروازہ اور ایک مغربی دروازہ۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے:
((فَاَخَافُ اَنْ تُنْکِرَ قُلُوْبُہُمْ)) [1]
’’مجھے ڈر ہے کہ ان کے دل نہیں مانیں گے۔‘‘
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو نامکمل چھوڑ دیا تاکہ کچھ لوگ اس سے بڑے نقصان میں نہ پڑ جائیں اور وہ آپ کی تکذیب اور کفر کر بیٹھیں ۔
|