اس حدیث سے کچھ فوائد حاصل ہوتے ہیں :
۱۔انسان کو اپنی موت قریب ہونے کا احساس ہو جاتا ہے لیکن یہ کہانت کے بل بوتے پر نہیں ہوتا۔ صحیح بخاری و مسلم میں حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبریل ہر سال مجھے قرآن سناتا تھا اور اس سال اس نے مجھے دو بار قرآن سنایا اور میں اس سے یہ سمجھا ہوں کہ میری موت کا وقت آ چکا ہے۔‘‘[1]
اور یہ توجیہ ۔اللہ بہتر جانتا ہے۔ دیگر توجیہات سے زیادہ بہتر ہے۔[2]
حافظ یوسف بن عبدالہادی[3] نے اس شبہ کو ایک اور طریقہ سے ردّ کیا ہے ۔ اس نے کہا: اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات کے بارے میں کہا کہ وہ علم غیب نہیں جانتے تو انھیں عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کا علم کیسے ہو گیا؟ تو کہا جائے گا: آسمان کی خبریں چوری کر کے انھیں یہ بات معلوم ہوئی کیونکہ وہ آسمان سے خبریں چراتے ہیں اور جو باتیں فرشتے کرتے ہیں وہ کانا پھوسی کے ذریعے سے ان کی سن گن لے لیتے ہیں تو ممکن ہے انھیں اس طریقے سے پتا چل گیا ہو۔[4]
رافضی اس شبہ کے ذریعے سے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی تکذیب کرنا چاہتے ہیں اور اس کی روایات کو مشکوک بنانا چاہتے ہیں ۔
چوتھا بہتان:
شیعہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتی تھیں اور وہ کہتی تھیں تم اس لمبی داڑھی والے بوڑھے احمق[5]کو مار ڈالو۔
|