رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیالی قبیلہ بنو زہرہ کے دو اشخاص سیّدنا مسور بن مخرمہ اور سیّدنا عبدالرحمن بن اسود بن یغوث رضی ا للہ عنہما سے مشورہ طلب کیا اور ان سے کہنے لگے میں تم دونوں کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم دونوں مجھے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تک پہنچاؤ، کیونکہ ان کے لیے مجھ سے قطع رحمی کی نذر حلال نہیں ۔ چنانچہ مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن دونوں عبداللہ کو اپنی چادروں میں لپیٹ کر لائے اور دونوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ دونوں نے انھیں سلام کیا اور پوچھا کیا ہم آ جائیں ؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آ جاؤ۔ انھوں نے پوچھا: کیا ہم سب آ جائیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی کہ تم سب آ جاؤ ۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ ان دونوں کے ساتھ ابن زبیر رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔ جب یہ لوگ کمرے میں گئے تو ابن زبیر اپنی خالہ کے پاس پردے کے اندر چلے گئے اور جاتے ہی ان سے لپٹ گئے اور روتے ہوئے انھیں اللہ کا واسطہ دینے لگے اور باہر سے مسور اور عبدالرحمن بھی انھیں اللہ کا واسطہ دے رہے تھے کہ وہ ضرور ان کو معاف کر دیں اور ان کا عذر قبول کر لیں ، وہ دونوں کہہ رہے تھے: بے شک آپ کو بخوبی علم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یَہْجُرَ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثَ لَیَالٍ)) [1]
’’کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو تین راتوں سے زیادہ ترک کرے۔‘‘
جب ان تینوں حضرات نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بکثرت الحاح و زاری کی تو وہ بھی نرم پڑ گئیں اور ان دونوں کو ناصحانہ انداز میں روتے ہوئے کہا: میں نے بڑی ہی سخت نذر مانی ہوئی ہے، تاہم وہ دونوں حضرات مسلسل انھیں مناتے رہے۔ بالآخر ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابن زبیر کی معذرت قبول فرما لی اور اپنی نذر کے کفارے میں چالیس غلام آزاد کیے۔ اس کے بعد جب کبھی وہ اپنی نذر معصیت کو یاد کرتیں تو اتنا روتیں کہ ان کی اوڑھنی بھیگ جاتی۔[2]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زندگی بھر اسی محکم منہج اور روشن سیرت پر گامزن رہیں تاآنکہ وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔
۵۔ لوگوں کے درمیان صلح کروانے کی حرص:
جنگ جمل میں ان کی شرکت کا قصہ زبان زَد عام ہے۔ اگرچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا وہاں صرف فریقین
|