Maktaba Wahhabi

129 - 460
اور) حساب لینے والا کافی ہے۔‘‘ یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایات دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمھارے پاس رہا،تم نے اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال ان کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں،عام لوگوں کو تو تمھاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتا نہ چلے،لیکن اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپی نہیں۔اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ یہ یتیم کے مال کا سرپرست بننا بہت ذمے داری کا کام ہے۔[1] 52۔تعددِ ازواج کی اجازت: سورۃ النساء (آیت:۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَعُوْلُوْا} ’’اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو اُن کے سوا جو عورتیں تمھیں پسند ہیں،دو دو یا تین تین یا چار چار اُن سے نکاح کر لو اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو،اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔‘‘ اس کی تفسیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح مروی ہے کہ صاحبِ حیثیت اور صاحبِ جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیرِ پرورش ہوتی تو اس کے مال اور حسن و جمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کر لیتا،لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہر
Flag Counter