ہیں : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرے چہرے پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا۔ جس سے میری ناک اور دونوں نتھنوں سے خون بہنے لگا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیری ماں مر جائے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف نہیں کریں گے تو پھر اور کون کرے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم یہ نہیں چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اپنے ہاتھ سے میرے چہرے اور کپڑوں سے خون صاف کیا۔[1]
اس شبہے کا ازالہ:
متعدد اسباب کی بنا پر یہ حدیث ضعیف ہے، جو کہ درج ذیل ہیں :
۱۔مبارک بن فضالہ بن ابی امیہ قرشی عدوی، ابو فضالہ بصری ضعیف ہے۔ محدثین کی ایک جماعت نے اسے ضعیف کہا۔ عبداللہ بن احمد نے کہا: میں نے ابن معین سے مبارک بن فضالہ کے بارے میں پوچھا، تو اس نے کہا: اس کی روایت ضعیف ہے، وہ ضعف میں ربیع بن صبیح کی طرح ہے۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف کہا۔ امام احمد نے کہا وہ جو روایت حسن سے کرے وہ حجت ہے۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ حسن کے علاوہ سے جب کوئی روایت کرے تو وہ ضعیف ہے اور طیالسی فرماتے ہیں اس کی تدلیس شدید ہے۔[2]
اس روایت میں اس نے تحدیث کی صراحت نہیں کی، اس لیے اس کی حدیث قبول نہیں کی گئی۔ نیز اس میں کچھ منکر الفاظ بھی موجود ہیں ۔
پانچواں شبہ:
روافض کہتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا ہاتھ کاٹے جانے کی بددعا دی۔‘‘
اس کی صورت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بددعا دیتے تھے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مروی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک قیدی لائے، میں اس سے غافل ہو گئی۔ وہ چلا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو پوچھا: قیدی کا کیا بنا؟ میں نے کہا: میں عورتوں کے ساتھ مل کر اس سے غافل ہو گئی اور وہ چلا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ تیرا ایک ہاتھ یا دونوں ہاتھ کاٹ دے تو تجھے کیا فرق پڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے اور لوگوں کو اطلاع کی وہ سب اسے تلاش کرنے لگے اور اسے ڈھونڈ لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے تو میں اپنے ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے کیا
|