دار آخرت کو منتخب کیا اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حرام کر دیا کہ ان بیویوں کے بدلے آپ کوئی اور کر لیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حرام کر دیا کہ ان بیویوں کے بعد کسی اور عورت سے شادی کریں اور اس آیت خیار اور تحریم کے بعد کی مدت میں اختلاف ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کرنے کی اجازت تھی یا نہیں ۔قرآنی نصوص کے مطابق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو وہ سب امہات المومنین کے لقب سے معمور تھیں ۔ پھر قرآن میں یہ وضاحت آ چکی تھی کہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور توبہ سے گناہوں کی معافی ہو جاتی ہے اور نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور مصائب پر صبر کرنے سے گناہوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے۔[1]
یہی اوصاف امہات المؤمنین رضی ا للہ عنہن کے شایانِ شان ہیں جو تمام مومنوں کی مائیں ہیں ۔ ان کا فضل و شرف اور ان کی صلاحیتیں یقینی ہیں اور اہل السنہ کے علاوہ اولیاء اللہ کی کما حقہ توقیر کرنے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ہمیشہ عادلانہ فیصلے کرتے ہیں اور معاملات کو انصاف کے ترازو میں تولتے ہیں ۔ چونکہ ان میں غلو کرنے والوں کا ظلم بھی نہیں اور نہ ہی افتراء پردازوں جیسی جرأت ہے۔
مذکورہ بالا شبہ کے جواب کا خلاصہ
مذکورہ بالا شبہ کے جواب کا خلاصہ ہم دو نکات میں بیان کر سکتے ہیں :
۱۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی حفصہ رضی اللہ عنہا تھیں نہ کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ۔
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ سے فرمایا: ’’تم کسی کو نہ بتانا اور ام ابراہیم مجھ پر حرام ہے۔ سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے جو حلال کیا ہے کیا آپ اسے حرام کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اس کے قریب بھی نہیں جاؤں گا۔ بقول راوی جب تک حفصہ نے عائشہ کو خبر نہ کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام ابراہیم کے قریب نہیں گئے۔ تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ﴾ (التحریم: ۲)
’’بے شک اللہ نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے۔‘‘[2]
|