صبر کا عظیم مظاہرہ کیا اور اللہ کی رضا کے لیے اسے بہت اچھی طرح نبھایا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے لیے یہ صدمہ جانکاہ تھا۔ لوگوں کی افواہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچاتی تھیں اور آپ کے لیے دوسری جو سب سے بڑی اذیت تھی وہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی پریشانی بہت کھلتی تھی۔ کیونکہ وہ جب بھی پریشان ہوتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سہارا دیتے اور آپ اپنے عمدہ اخلاق اور بھرپور شفقت کا سایہ ان پر کیے رہتے۔ یہ بہتان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہت مشقت آمیز ہو گیا۔ حتیٰ کہ ہماری امی جان عفیفۂ کائنات رضی اللہ عنہا کی پریشانی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات تک نہیں کر سکتے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی براء ت اور پاک دامنی کا پورا یقین تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بیماری کو بھی سمجھتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف انہی دو الفاظ پر اکتفا کرتے: ((کَیْفَ تِیْکُمْ)) ’’تم کیسی ہو؟ اور آخر میں کہتے ، تم پر اللہ کی رحمت و سلامتی ہو۔‘‘
جب معاملہ کی حقیقت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہی تھی تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ اصحاب اور جیسے علی اور اسامہ رضی ا للہ عنہما اور اپنے اہل بیت جیسے ام المؤمنین زینب اور سیّدہ عائشہ رضی ا للہ عنہما کی خاص خادمہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے کیوں پوچھ گچھ کی؟ کیا ضلالتوں کے پجاریوں کے کہنے کے مطابق یہ سوالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شک کی بنیاد پر کیے تھے اور علی رضی اللہ عنہ کا جواب شک کی تائید و تاکید میں تھا؟[1]
درج بالا شکوک و شبہات کا ازالہ:
۱۔یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیوی کی پاک دامنی پر پورا یقین تھا۔ اس کے باوجود افواہ سازوں کی افواہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر عظیم کا مظاہر کیا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند کیا کہ آپ دوسروں سے یہ پوچھ کر اور ان سے یہ جواب سن کر دلی سکون حاصل کریں اور یہ تجربے کی بات ہے کہ پریشان حال اور صدمے سے دوچار شخص کو دوسروں کی تسلی دلانے اور ان کی حوصلہ افزائی سے زیادہ حوصلہ ملتا ہے اور اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مکمل طور پر محفوظ و معصوم ہیں کہ وہ اپنے سب سے زیادہ قریبی اور سب لوگوں سے زیادہ اپنی محبوب بیوی کے بارے میں شک کریں ۔
|