۱۔ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خود اس آیت کے منسوخ ہونے کی گواہی دی ہے:
چنانچہ عبدالملک بن عبدالرحمن سے روایت ہے اس نے اپنی والدہ ام حمید بنت عبدالرحمن سے روایت کی کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ عزوجل کے اس فرمان ((و الصلوۃ الوسطی)) کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسے پہلے الفاظ کے مطابق پڑھا کرتے تھے: ((حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی و صلوۃ العصر و قوموا للّٰه قانتین)) [1]
۲۔ لفظ (متتابعات) مصحف میں نہیں ملتا:
عروہ نے عائشہ سے روایت کی کہ یہ آیت نازل ہوئی ﴿ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ﴾ (البقرۃ: ۱۸۴) متتابعات، تو اب متتابعات کا لفظ ساقط ہے۔[2]
اس شبہے کا ازالہ:
سقطت کے معنی جاننا بہت ضروری ہے، اس کا معنی ہے منسوخ کر دی گئی اور اس کی تلاوت اٹھا لی گئی۔ لہٰذا یہ لفظ منسوخ ہے۔ تو گویا ابتدائے اسلام میں ’’تتابع‘‘ لگاتار ضروری تھا۔ پھر لگاتار و متواتر کا حکم منسوخ کر دیا گیا اور اس کی تحریف قرآن کے ساتھ کوئی نسبت نہیں ۔[3]
۳۔ بقول شیعہ ’’عائشہ کہتی ہیں : بے شک اس کے پاس ’’آیت الرجم‘‘ اور دودھ پلانے کی بابت ’’آیت رضاع الکبیر‘‘ اُتری لیکن وہ بکری کھا گئی: [4]
محمد بن اسحاق نے عبداللہ بن ابی بکر سے، اس نے عمرہ سے اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور دوسری سند کے مطابق عبدالرحمن بن قاسم نے اپنے باپ سے اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ بے شک آیت الرجم نازل ہوئی اور ’’رضاعۃ الکبیر عشرا‘‘ دس بار دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ یہ آیات ایک صحیفہ میں میرے بستر کے پلو کے نیچے تھیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو ہم آپ کی وفات کی وجہ سے مصروف تھے۔ بکری کمرے کے اندر آئی اور وہ صحیفہ کھا گئی۔[5]
|