عالم تھے۔ اسی لیے عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فقیہ ہونے پر کوئی تعجب نہیں اور نہ ہی ان کے عربوں کی جنگی مہمات اور ان کے اشعار کی عالمہ ہونے پر تعجب ہے۔ کیونکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ان سے یہ معلومات جمع کر لیتی تھیں ، جو سب لوگوں سے زیادہ ان چیزوں کے عالم تھے۔ لیکن مجھے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس علم طب کے بارے معلومات ہونے پر تعجب ہوتا ہے۔‘‘[1]
چھٹا نکتہ
سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علوم لغت، شعر اور بلاغت میں رسوخاور ان مجالات میں ان کا اعلیٰ مقام
ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو فصاحت و بلاغت اور شعر و ادب میں بلند مقام حاصل تھا۔ موسیٰ بن طلحہ[2]رحمہ اللہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:
’’میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فصیح کوئی نہیں دیکھا۔‘‘[3]
سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی ا للہ عنہما فرماتے ہیں :
’’میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑا فصیح و بلیغ خطیب نہیں دیکھا۔‘‘[4]
ان کی فصاحت و بلاغت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ان کا کلام بہت عمدہ اور جذبات سے لبریز ہوتا ہے۔ گویا وہ ان کی اصلی ثقافت اور ان کے وافر ذخیرہ علمی سے حاصل ہو رہا ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے
|