بھرپور دیانت سے جاری رکھا۔[1]،[2]
سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مدتِ خلافت طویل نہ تھی۔ دو سال تین ماہ اور دس دن تک مسند خلافت پر فائز رہنے کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وفات پائی۔ وہ تقریباً پندرہ دن تک بیمار رہے۔ لوگ ان کی عیادت کرتے رہے اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والد محترم کی خدمت پر مسلسل مامور رہیں ۔ اس دوران وہ عربوں کے کہے ہوئے اشعار کے ذریعے والد محترم خلیفۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے دل کو تسلی دیتیں ۔ وہ اپنی پیاری بیٹی کو تنبیہانہ اور ناصحانہ انداز میں کہتے کہ اشعار کی بجائے قرآن کریم کی آیات پڑھا کرو۔ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت جب قریب آیا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حاتم (شاعر عرب) کا یہ شعر پڑھا:
لَعَمْرُکَ مَا یُغْنِی الثَّرَائُ عَنِ الْفَتَیِ
اِذَا حَشْرَجَتْ یَوْمًا وَ ضَاقَ بِہَا الصَّدْرُ
’’تیری عمر کی قسم! جس دن محشر میں جانا ہو گا اور سینے میں گھٹن ہو رہی ہو گی تو نوجوان کو اس کی دولت کوئی فائدہ نہ دے گی۔‘‘
تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے بیٹی! تو اس طرح نہ کہہ بلکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ:
﴿ وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ ﴾ (قٓ: ۱۹)
’’اور موت کی بے ہوشی حق کے ساتھ آئے گی، یہ ہے وہ جس سے تو بھاگتا تھا۔‘‘
سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وصیت:
سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو وصیت کی کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں قبر کھودی گئی اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کی سیدھ میں رکھا گیا اور ان کی لحد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے ملایا گیا۔[3] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قبر بھی ہموار بنائی گئی اور اس پر پانی چھڑکا گیا۔[4]
|