(۶).... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز وتر کا مسئلہ[1]
وہ اصول جن پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے استدراکات کی بنیاد تھی
یہ عنوان قائم کرنے سے ہمارا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سب کچھ درست کہا، یا یہ کہ جن پر انھوں نے استدراکات کیے، ان پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے کو ترجیح دی جائے۔ یہ مقام اس بحث کے لیے مناسب نہیں اور نہ ہی ہم انبیاء کے علاوہ کسی کے معصوم ہونے کے قائل ہیں ۔ لیکن ہمارا مقصد صرف سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فقاہت کی معرفت ہے۔
۱۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کے مطابق روایت کی تصحیح کرنا:
اس کی مثال سیّدنا ابن عمر رضی ا للہ عنہما کی وہ روایت ہے جو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مہینا انتیس دنوں کا ہوتا ہے۔‘‘
یہ بات لوگوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتائی تو انھوں نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن پر رحم کرے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو ایک ماہ تک چھوڑے رکھا۔ پس آپ انتیس دنوں کے بعد لوٹ آئے؟ یہ بات آپ سے کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک مہینے میں انتیس دن بھی ہوتے ہیں ۔‘‘[2]
اس کی مثال یہ بھی ہے کہ میت کو اس کے ورثا کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ چونکہ عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ سے روایت ہے:
جب مکہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی فوت ہوئی تو ہم جنازہ میں شامل ہونے کے لیے آئے۔ ابن عباس رضی ا للہ عنہما بھی موجود تھے اور میں ان دونوں کے درمیان یا کسی ایک کے پاس بیٹھ گیا۔ پھر دوسرا آیا اور میرے پہلو میں بیٹھ گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہا: اے عمرو بن عثمان! تو رونے سے روکتا کیوں نہیں ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک میت کو اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘
سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کہا کرتے تھے۔ جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ پر
|