کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ کوئی ایسی روایت نہیں دکھا سکتے جس سے یہ ثابت ہو کہ علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کیا تھا۔ لیکن یہ روایت صحیح ہی نہیں ، کیونکہ اس کی سند میں عبداللہ بن عبدالقدوس ہے۔ اس کے بارے میں ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: ’’ یہ بے وزن شیعہ خبیث ہے۔ ‘‘[1]
لیکن اس سب کے باوجود شیعہ مسلسل یہ روایات سناتے اور لکھتے چلے آ رہے ہیں کیونکہ وہ ان کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں ۔ باوجودیکہ ان روایات میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے حسین رضی اللہ عنہ کی تکریم و تقدیس کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔[2]
تیسرا بہتان:
اہل روافض کہتے ہیں کہ ’’عائشہ فاطمہ رضی ا للہ عنہما سے اس قدر ناراض ہوئی کہ بالآخر وہ رونے لگی۔ ‘‘
مزید روافضہ کا کہنا ہے : ’’عائشہ فاطمہ رضی ا للہ عنہما پر اس قدر غضبناک ہوئیں کہ ثانی الذکر رونے پر مجبور ہو گئیں اور اس کا بنیادی سبب عائشہ رضی اللہ عنہا کا وہ بغض و کینہ تھا جو وہ اہل بیت کے خلاف رکھتی تھیں ۔‘‘
صدوق نے کہا:
’’ہمیں محمد بن حسن بن احمد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بواسطہ محمد بن حسین صغار، اس نے بواسطہ احمد بن محمد بن خالد، اس نے بواسطہ ابو علی الواسطی اس نے عبداللہ بن عصمہ، اس نے بواسطہ یحییٰ بن عبداللہ، اس نے بواسطہ عمرو بن ابی المقدام، اس نے اپنے باپ سے اس نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر آئے تو دیکھا کہ عائشہ فاطمہ رضی ا للہ عنہما کو سخت ڈانٹ رہی ہیں اور وہ کہہ رہی ہیں : اللہ کی قسم! اے خدیجہ کی بیٹی! تو کیا سمجھتی ہے کہ تیری ماں کو ہمارے اوپر کچھ فضیلت حاصل ہے اور اسے ہم پر کیا فضیلت حاصل ہو سکتی ہے، وہ کیا تھیں ، ہم جیسی ہی ایک عورت تھیں ۔ فاطمہ نے عائشہ کی باتیں سنیں جب فاطمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو رونے لگیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا: عائشہ نے میری ماں کی تنقیص کی تو میں رو پڑی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی غصے میں آ گئے اور فرمایا: اے حمیراء! رک جا، بے شک اللہ تعالیٰ نے اولاد دینے والی اور محبت کرنے والی عورت
|