Maktaba Wahhabi

365 - 677
مرویات میں حق و عدل کے پسند کرنے والے اور ہر منصف مزاج کے لیے کافی عبرت آموز سبق ہے ۔ اگر روافض ان حقائق کا انکار نہ کرتے تو ان بدیہی حقائق کو دہرانے کا مطلق کوئی مقصد نہ تھا اور حقیقت حال اللہ سبحانہ و تعالیٰ زیادہ جانتا ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے متعلق اہل بیت میں سے بنو عباس کا موقف ۱۔ عباسی حکمران موسیٰ بن عیسیٰ بن موسیٰ[1] (ت ۱۸۳ ہجری) کا فیصلہ: قاضی عیاض نے لکھا ہے : ’’کوفہ میں ایک آدمی نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کی، جب موسیٰ بن عیسیٰ بنو عباس کے گورنر تک یہ خبر پہنچی تو اس نے کہا: اسے کون میرے سامنے پیش کرے گا؟ ابن ابی لیلیٰ نے کہا: اسے میں پیش کروں گا۔ جب وہ پیش ہوا تو اسے اسی کوڑے لگائے گئے اور اس کا سر مونڈ کر سنگی لگانے والوں کے حوالے کر دیا گیا۔‘‘[2] ۲۔ عباسی خلیفہ متوکل علی اللہ (ت ۲۴۷ ہجری) کا فیصلہ: خلیفہ متوکل علی اللہ[3] نے بغداد کے ایک مشہور آدمی کو کوڑے لگوائے، جس کا نام عیسیٰ بن جعفر بن محمد بن عاصم تھا۔ خلیفہ کے حکم سے اسے ایک ہزار درے انتہائی سختی سے لگائے گئے حتیٰ کہ وہ مر گیا اور اس سزا کا سبب یہ بنا کہ بغداد کی تحصیل شرقی کے قاضی ابو حسان زیادتی کے سامنے سترہ آدمیوں نے گواہی دی کہ یہ شخص سیّدنا ابوبکر، سیّدنا عمر، سیّدہ عائشہ اور سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیتا ہے۔[4]
Flag Counter