کے پاس اپنی قسطوں کی ادائیگی میں مدد لینے کے لیے آئی۔ جب وہ ہمارے دروازے پر آ کر کھڑی ہوئی تو مجھے بہت بری لگی اور مجھے یقین ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسے دیکھیں گے تو آپ کو بھی وہ چیز ضرور دکھائی دے گی جو میں نے دیکھ لی ہے۔ چنانچہ وہ کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں حارث کی بیٹی جویریہ ہوں ۔ میرا معاملہ آپ سے پوشیدہ نہیں (یعنی میں مفتوحہ قبیلہ کے قیدیوں میں آئی ہوں ) اور میں ثابت بن قیس بن شماس کے حصے میں آئی ہوں ۔ میں نے اپنی آزادی کے لیے قسطیں مقرر کروا لی ہیں ۔ تو میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں تاکہ آپ قسطوں کی ادائیگی میں میری مدد کریں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو تیرا کیا خیال ہے اگر تیرے ساتھ اس سے اچھا معاملہ طے ہو جائے؟‘‘ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تیری قسطیں دوں گا اور تجھ سے شادی کروں گا۔‘‘ اس نے کہا: مجھے منظور ہے۔
سیّدہ عائشہ فرماتی ہیں : جب لوگوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ سے شادی کر لی ہے تو ان کے پاس اس (قبیلے) کے جتنے قیدی مرد و خواتین تھے انھوں نے سب کو آزاد کر دیا اور وہ کہنے لگے یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار ہیں ۔ تو ہم نے اپنی قوم کے لیے اس خاتون سے زیادہ کوئی بابرکت خاتون نہیں دیکھی، جس کے سبب بنو مصطلق کے سیکڑوں گھرانوں میں رہنے والوں کو آزادی ملی۔‘‘[1]
۱۰۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے لیے اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت طلب کرتے وقت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انداز یاد آ گیا۔ آپکے چہرے پر خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات سے نمایاں ہوئے اور فرمایا: ’’اے اللہ! یہ تو ہالہ ہے۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں رقابت کی آگ میں جل اٹھی۔ چنانچہ میں نے کہہ دیا: آپ قریش کی ایک سرخ باچھوں والی بوڑھی کو ہر وقت کیوں یاد کرتے ہیں جبکہ اسے فوت ہوئے ایک زمانہ بیت گیا ہے؟ بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بدلے میں
|