نہیں ہوتا۔ کیا یہ پستی ان ظالموں کے بہتان کی دلیل بن جائے گی جس سے نعوذ باللّٰہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف فحاشی منسوب کرنا جائز ہو جائے گا؟! بلاشبہ عقلی طور پر یہ ثابت ہے کہ جن کاموں سے فطرت سلیمہ نفرت کرتی ہو ، نفس انسانی بھی ان کاموں سے بھڑک اٹھتے ہیں اور وہ گھٹن محسوس کرتے ہیں ، کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر تمام ادیان کے عقل مند لوگ متفق ہیں اور یہ ہے وہ اخلاق کی اساس کہ جس سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔
جبکہ کچھ پہلو ایسے ہیں مثلاً جب عقائد و افکار میں اختلاف ہو تو نفس انسانی اسے برداشت کر لیتے ہیں اور انھیں لامحدود تشویش نہیں ہوتی اور اس کا بنیادی سبب اذہان و افہام اور عقلوں کا اختلاف ہے۔ لیکن یہ عقول بنفس نفیس اپنے مسالک اور مذاہب کے اختلاف کے باوجود اخلاق کی بنیادوں پر متفق ہیں ، وہ اس اخلاقی دائرے سے باہر نہیں نکلتیں چاہے ان کا کوئی سا بھی دین ہو۔
علی سبیل المثال: میرا پڑوسی عیسائی، بدھ مذہب کا پیروکار ہو سکتا ہے اور یہ ایک معمول کی بات ہے لیکن اگر میں سڑک پر کسی ننگے آدمی کو چلتے ہوئے دیکھوں تو ہر گز برداشت نہیں کر سکتا ، حالانکہ پہلا شخص فاسد عقیدے کا مالک ہے جبکہ دوسرا شخص فاسد اخلاق کا مالک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفوس انسانی بنیادی طور پر حسن اخلاق پر پیدا ہوئے اگرچہ مذاہب و ادیان میں اختلاف بھی ہو اور بدخلق کی بہرصورت مذمت کی جاتی ہے۔ چاہے وہ ہم مذہب و ہم مسلک کیوں نہ ہو۔
ہم نے آج تک نہیں سنا کہ کسی صالح کے اہل خانہ سے کوئی کافر ہو جائے تو اس کی وجہ سے اسے عار دلایا جاتا ہو وگرنہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو ضرور عار دلایا جاتا کہ ان کا باپ آذر ایک بت پرست تھا۔ نوح علیہ السلام کے کافر بیٹے کی وجہ سے ضرور عار دلایا جاتا اور ابو طالب کی وفات بے دینی پر ہوئی تو اس وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عار دلایا جاتا۔
تو کیا کسی نیک آدمی کو اس لیے عار دلائی گئی کہ اس کے اقربا میں سے کوئی کافر تھا؟ اس کے برعکس کسی انسان کی عزت اور بزرگی میں کوئی عیب ہو تو ہر کوئی اسے برا جانے گا اور اسے عار دلائے گا اور اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ فلاں اپنے گھر والوں کی خیانت پر پردہ ڈالتا ہے اور فحاشی میں وہ بھی ملوث ہے، کیونکہ یہ عار قابل مغفرت نہیں اور ایسا زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب کسی پر بداخلاقی کا دھبہ لگ جائے گا تو اس کا وقار ختم ہو جائے گا اور اس کی انسانیت کی بنیاد ڈھے جائے گی۔ خبردار! انسانیت کی بنیاد شریفانہ اخلاق ہیں ، اور جو شخص آدم علیہ السلام کی معصیت کی تفصیل سے واقف ہے وہ فطرت سلیمہ کے
|