Maktaba Wahhabi

657 - 677
قریب ہیں ۔ اس لیے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کو اپنی مائیں سمجھتے ہیں ۔ سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں لکھا اور اس بات پر مسلمان مفسرین کا اجماع ہے کہ .... ’’آیت میں ﴿ فَخَانَتَاهُمَا ﴾ سے مراد دین میں خیانت ہے، وہ کہتے ہیں البتہ یہ زنا تو بالکل نہ تھا، لیکن ان دونوں میں سے ایک لوگوں کو اپنے خاوند کے بارے میں بتلاتی تھی کہ یہ پاگل ہے۔ اس کی باتوں کا یقین مت کریں اور دوسری لوگوں کو اپنے خاوند کے پاس آنے والے مہمانوں کی خبر دے دیا کرتی تھی۔ پھر ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے یہ آیت پڑھی: ﴿إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ﴾ (ہود: ۴۶) ’’بے شک یہ ایسا کام ہے جو اچھا نہیں ۔‘‘[1] نیز ابن عباس رضی ا للہ عنہما فرماتے ہیں : ’’کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا نہیں کیا۔‘‘[2] انبیائے کرام کے حرم کی پاکیزگی کے بارے میں سب اہل سنت کا اعتقاد ہے، جسے سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے حکایتاً ان سے بیان کیا۔ یہ ابن عباس رضی ا للہ عنہما کی اپنی سوچ اور امید نہیں تھی اور جہاں تک ہماری امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ ہے تو ان پر بدزبانوں نے ماریہ رضی اللہ عنہا کی نسبت سے جھوٹ موٹ کی تہمت لگائی ہے لیکن سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا دفاع کیا اور اسے ان کے بہتان سے پاک دامن ثابت کیا۔ جیسا کہ حاکم رحمہ اللہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت کی ہے انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماریہ تحفہ میں ملی تو اس کے ساتھ ان کا چچا زاد (جریج) بھی تھا۔ بقول سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار ہی اس کے ساتھ خلوت میں گئے تو وہ حاملہ ہو گئی۔ بقول سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا : تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے چچا زاد کے ساتھ علیحدہ رہائش لے دی۔ بہتان تراش لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اس (نبی) کو بیٹے کی خواش تھی تو اس نے کسی اور کے بچے کو اپنی طرف منسوب کر لیا اور اس (ابراہیم کی ماں ) کا دودھ کم تھا، ماریہ رضی اللہ عنہا نے اس کے لیے ایک دودھیل بھیڑ[3] خریدی۔ ابراہیم رضی اللہ عنہ کو اس کا دودھ بطور غذا پلایا جاتا تھا جس سے اس کا جسم خوب موٹا ہو گیا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ایک دن اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter