Maktaba Wahhabi

643 - 677
پھر وہ اپنے ماں باپ کی طرف باری باری متوجہ ہوئیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے جواب دے کر مطمئن کریں ۔ ان دونوں نے چپ سادھ لی تو اس زخمی جان کے کرب میں مزید اضافہ ہو گیا اور انھیں یقین ہو گیا کہ خود بات کیے بغیر چارہ نہیں ۔ زمین پر رہنا ان کے لیے مشکل ہو گیا ، ان کا جی حزن وملال سے بھر گیا ، ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ، چنانچہ اس گھڑی انھیں رب العالمین سے مدد طلب کرنے کے علاوہ کسی سہارے کی امید نہ رہی۔ انھوں نے اپنے غم اوردکھ کی شکایت صرف اسی رب سے ہی کرنے کی ٹھان لی، آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے سوچا کہ میں کم عمر لڑکی ہوں بکثرت قرآن بھی نہ پڑھتی تھی۔ اللہ کی قسم! تم سب نے یہ گفتگو سنی حتیٰ کہ تمہارے دلوں میں اس گفتگو کا پختہ اثر ہو گیا اور تم نے بزبان حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی تصدیق کر دی۔ اب اگر میں تمھیں کہوں کہ میں پاک دامن ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں پاک دامن ہوں تم میری اس بات کا یقین کرنے سے رہے اور اگر میں تمہارے سامنے اس گناہ کا اعتراف کر لوں حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو تم ضرور مجھے سچا کہو گے۔ اللہ کی قسم! مجھے تو تمہارے سامنے ابو یوسف علیہ السلام کا قول ہی دہرانا مناسب لگتا ہے: ﴿ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ ﴾ (یوسف: ۱۸) ’’سو (میرا کام) اچھا صبر ہے اور اللہ ہی ہے جس سے اس پر مدد مانگی جاتی ہے جو تم بیان کرتے ہو۔‘‘ ایسا کلام صرف صاف شفاف دل والا انسان ہی کر سکتا ہے۔ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے وہ سب کچھ کہنا مشکل تھا جس کا تصور کبھی ان کے دل میں نہ آیا تھا کجا یہ کہ انھیں اسی مکروہ جال میں پھانسنے کی کوشش کی گئی۔سیّدہ رضی اللہ عنہا کے غمگین دل کی یہ کیفیت تھی کہ انہیں حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام بھی یاد نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے صرف یوسف کے والد کہا۔ ۱۱۔اگرچہ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کے ہاں بہت ہی اعلیٰ مقام و اعلیٰ شان ہے۔ لیکن انھوں نے ان کٹھن حالات میں بھی اپنی اس فضیلت و منزلت پر تکیہ نہ کیا اور اپنے رب کے سامنے تواضع و زاری کی۔ اسی کے سامنے اپنی حاجت مندی کا اظہار کیا۔ اس نوعمری (اس حادثے کے وقت وہ محض چودہ سالہ دوشیزہ تھیں ) میں بھی انھوں نے اپنی ذات کو کوئی اہمیت نہ دی۔ تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس نوعمری میں بھی جب اپنی جان کی ہلاکت کا اندیشہ تھا۔ انھیں اپنے رب تعالیٰ کے سہارے پر کامل بھروسا تھا، انھیں اس کے متعلق کامل حسن ظن اور اس پر مکمل اعتماد تھا۔ چنانچہ وہ
Flag Counter