جب انھیں علم ہوا تو وہ اپنی حالت بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں : میں اس تمام رات روتی رہی نہ تو میں نے نیند کی وجہ سے لمحہ بھر کے لیے پلک جھپکی اور نہ میرے آنسو تھمے۔ بلکہ میں نے صبح بھی روتے ہوئے کی۔ پھر اس کے بعد وہ کہتی ہیں : میرے ماں باپ میرے پاس صبح آئے جبکہ میں نے روتے ہوئے دو راتیں اور ایک مکمل دن گزار دیا۔ وہ دونوں سوچنے لگے کہ اس قدر رونا میرے جگر کو پھاڑ دے گا۔ بقول عائشہ رضی اللہ عنہا ابھی وہ دونوں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی میں نے اسے اجازت دے دی اور وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔[1]
۱۰۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی گفتگو کا رُخ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی طرف موڑا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ایک ماہ تک کوئی گفت و شنید نہ کی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حیرت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کہ جب آپ نے ان کی پاک دامنی اللہ رب العالمین کے سپرد کر دی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ان سے گناہ ہو گیا ہے تو (اللہ انھیں اس گناہ سے اپنی امان میں رکھے)وہ توبہ و استغفار کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انداز سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اچانک تعجب ہوا اور اسی کی وجہ سے ان کے آنسو بہنا بند ہو گئے اور زبان گنگ ہو گئی۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ منافقوں کے لگائے گئے بہتان سے اپنے دل و دماغ کو خالی کر چکی تھیں ۔ ان کے دل میں اس تہمت کا شائبہ تک نہ رہا اور دماغ ان مکدرانہ تصورات سے بالکل خالی ہو گیا۔
کیونکہ اچانک پن انسان کی سابقہ معلومات کی نفی کرتا ہے جس سے انسان کا ذہن صدمے سے محفوظ ہو جاتا ہے اور یہ کہ جس کی انھیں امید نہ تھی وہ پیش آ گیا جس کی وجہ سے اس قسم کا حیرت انگیز کلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے سن کر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی قوت سماعت عاجز آ گئی اور انھیں یہ جان کر دلی اطمینان حاصل ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری پاک دامنی کا بلا شک و شبہ یقین ہے۔
اس لیے انھوں نے بیچارگی سے اپنا رونا دھونا بند کر دیا۔ اگرچہ وہ محسوس کر رہی تھیں کہ ان کو پہنچنے والا صدمہ ان آنسوؤں سے نہیں دھل سکتا۔ وہ خود بیان کرتی ہیں : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو ختم کی تو میرے آنسو تھم گئے۔ حتیٰ کہ مجھے یوں لگا گویا میں نے ایک آنسو بھی نہ بہایا ہو۔[2]
|