ابو عبداللہ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’یہ بات کہی جاتی ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے سفر بصرہ پر مکمل طور پر نادم ہوئیں اور خصوصاً جنگ جمل میں اپنی موجودگی پر اظہار افسوس کرتیں اور وہ کہا کرتی تھیں کہ میں نے نہیں سوچا تھا کہ معاملہ اس حد تک بگڑ جائے گا۔‘‘[1]
ہماری امی جان اس واقعہ کو یاد کرتیں اور کف افسوس ملتیں اور کہتیں میں چاہتی ہوں کاش میں گیلی ٹہنی ہوتی اور اپنے اس سفر پر کبھی روانہ نہ ہوتی۔[2]
سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’اگر میں اپنے اس سفر پر روانگی کے بجائے بیٹھی رہتی تو یہ مجھے اس چیز سے زیادہ محبوب تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے دس بیٹے ہوتے جیسے حارث بن ہشام کی اولاد ہے۔‘‘[3]
سیّدہ صدیقہ فرماتی ہیں : ’’مجھ سے ایک گناہ سرزد ہوا تم مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر بیویوں کے ساتھ دفن کرنا۔ اس لیے عائشہ رضی اللہ عنہا کو قبرستان بقیع میں دفن کیا گیا۔‘‘
امام ذہبی ان کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میں کہتا ہوں واقعہ یا گناہ سے مراد ان کا جنگ جمل کی طرف جانا ہے بے شک انھوں نے اس پر کھل کر اپنی ندامت کا اظہار کیا اور اس سے توبہ کر لی۔ اگرچہ انھوں نے یہ کام نیک نیتی سے کیا تھا اور اپنی روانگی کا معقول عذر تراشا تھا، جیسا کہ طلحہ بن عبیداللہ اور زبیر بن عوام اورکبار صحابہ کی ایک جماعت نے اجتہاد کیا۔ اللہ ان سب سے راضی ہو جائے۔‘‘[4]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابن عمر رضی ا للہ عنہما سے بھی اس بات کا شکوہ کیا کہ اس نے انھیں سفر بصرہ پر روانگی سے روکا نہیں ۔ چنانچہ ابن ابی عتیق بیان کرتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’جب ابن عمر رضی ا للہ عنہما سامنے آئے تو تم مجھے بتلانا۔ جب وہ سامنے آئے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتلایا گیا کہ یہ ابن عمر رضی ا للہ عنہما ہیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے ابو عبدالرحمن آپ کو کس چیز نے روکا کہ آپ مجھے روانگی سے منع کریں ؟ انھوں نے عرض کیا: میں نے دیکھا کہ ایک آدمی
|