’’جنگ جمل کے دن جب جنگ میں شدت آئی اور علی رضی اللہ عنہ نے کھوپڑیاں اڑتی[1] ہوئی دیکھیں تو علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسن کو پکڑا اور انھیں اپنے سینے سے لپٹا لیا۔ پھر کہا: اے حسن! بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں ، آج کے بعد کسی بھلائی کی امید کی جائے گی؟ رضی ا للہ عنہما ‘‘[2]
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔ وہ دونوں طرف سے شہید ہونے والے مسلمانوں کے متعلق فرداً فرداً پوچھتی جاتیں اور شہداء کے لیے رحمت و مغفرت کی دعائیں کرتی جاتیں اور ساتھ ساتھ اپنی ندامت کا اظہار بھی کرتی جاتیں ۔[3]
علامہ ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے خاتمے کے بعد خالد بن واشمہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: ان کا کیا بنا، یعنی طلحہ رضی اللہ عنہ کا؟ اس نے کہا: اے ام المومنین! وہ شہید ہو گئے۔ وہ کہنے لگیں : انا للّٰہ و انا الیہ راجعون،اللہ ان پر رحم کرے۔ فلاں نے کیا کیا؟ اس نے بتایا کہ وہ بھی شہید ہو گئے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر انا للہ پڑھا اور کہا، اللہ ان پر رحم کرے اور زید اور زید کے ساتھیوں پر بھی ہم انا للہ پڑھتے ہیں ۔ یعنی زید بن صوحان۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا اور زید بھی شہید ہو گیا۔ بقول خالد میں نے کہا: ہاں ! انھوں نے کہا: انا للّٰہ و انا الیہ راجعون، اللہ اس پر رحم کرے۔ بقول خالد! میں نے کہا: اے ام المومنین! وہ اس لشکر میں تھا اور وہ دوسرے لشکر میں تھا۔ آپ سب پر رحم کی دعا کر رہی ہیں ؟ اللہ کی قسم! وہ کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوں گے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا تمھیں معلوم نہیں اللہ کی رحمت بہت زیادہ وسیع ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔[4]
ام المؤمنین ، عفیفۂ کائنات اپنی روانگی پر بے حد نادم تھیں اور کہتی تھیں کہ میرے لیے بہتر تھا کہ میں وہاں نہ جاتی۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا نے بصرہ کی طرف اپنی روانگی پر ندامت کا اظہار کیا اور وہ جب بھی اس سفر کو یاد کرتیں تو اتنا روتیں کہ ان کی اوڑھنی آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔‘‘[5]
|