جنگ زوروں پر تھی اور شہسوار ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے اور پیادہ شجاع صفوں کے اندر گھس چکے تھے۔ پس ۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ جنگ کی آگ بھڑکانے والا اصل گروہ سبائی تھی جو ابن سوداء کے ہم نوا تھے۔ اللہ ان پر لعنت کرے جو قتل سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ اسی دوران علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اعلان کرنے والا اعلان کرنے لگتا ہے کہ لوگو! رک جاؤ! لوگو! رک جاؤ! لیکن کوئی بھی نہیں سنتا۔ اسی اثنا میں قاضی بصرہ کعب آیا اور اس نے کہا: اے ام المومنین! آپ لوگوں کو نصیحت کریں ، امید ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے لوگوں کے درمیان صلح کروا دے۔ تو وہ اپنے اونٹ پر پالکی میں بیٹھیں ماتحتوں نے پالکی کو زرہوں سے ڈھانپ دیا۔ وہ آگے بڑھیں اور وہاں ٹھہر گئیں جہاں وہ سب لوگوں کو ان کے مقتل میں دیکھ سکیں ۔‘‘[1]
تو یہ لوگ اصل میں جنگ کی آگ لگانے والے اور اس کے الاؤ کو بھڑکانے والے تھے جنھوں نے مومنوں کے دو گروہوں کے درمیان فساد پھیلایا اور لوگوں کو انتقام پر ابھار کر انھیں باہمی قتال پر مجبور کیا۔ وہ خوش دلی کے ساتھ مقتل میں نہیں آئے بلکہ وہ ان کے باہمی اجتہادی اختلاف کا کڑوا پھل تھا اور وہ سب مخلص تھے اور ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے دوسرے بھائی کو معمولی سی تکلیف بھی نہیں پہنچا سکتا تھا ان سب سے زیادہ مخلص ہماری امی جان سیّدہ عائشہ اور سیّدنا علی رضی ا للہ عنہما تھے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’اس دن بے شمار لوگ شہید ہوئے حتیٰ کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: اے میرے بیٹے! کاش تیرا باپ آج سے بیس سال پہلے مر جاتا۔ حسن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اے ابا جان! میں آپ کو اس سے روکتا تھا۔‘‘
قیس بن عباد سے روایت ہے:
’’جنگ جمل والے دن علی رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ سے کہا: اے حسن! کاش تیرا باپ! بیس برس قبل مر جاتا۔ تو حسن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اے ابا جان! میں آپ کو اس کام سے روکتا تھا۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بیٹے! میں سمجھتا تھا کہ معاملہ اس حد تک نہیں پہنچے گا۔‘‘
مبارک بن فضالہ نے بواسطہ حسن ابوبکرہ سے روایت کی:
|