اس طرح تو اللہ کی قسم! لوگ تمھیں اچک لیں گے۔ پھر ابن سوداء نے کہا: اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دے، اے لوگو! تمہارا غلبہ لوگوں میں مل جل کر رہنے میں پنہاں ہے۔ جب لوگ اکٹھے ہوں تم ہلہ بول دو اور ان کو تحقیق کی مہلت مت دو۔ تم جس کے ساتھ ہو گے وہ ضرور تمہارا دفاع کرے گا اور تم جس چیز کو ناپسند کرتے ہو اللہ تعالیٰ طلحہ، زبیر اور ان کے ساتھیوں کو اسی میں پھنسا دے گا۔ سب لوگوں نے یہ رائے پسند کی اور اسی پر مجلس برخاست ہوئی۔[1]
ابن کثیر رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر لکھا:
’’وہ رات صحابہ کے لیے سب سے پرسکون رات تھی اور عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کے لیے وہ رات سب سے زیادہ تلاطم خیز تھی۔ وہ متفق ہو گئے کہ جنگ کے شعلے سحری کے وقت[2] بھڑکائیں گے۔ وہ صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے اٹھ کھڑے ہوئے جو تقریباً دو ہزار کے قریب تھے۔ ان میں سے ہر جماعت اپنے پڑوس والوں پر تلواروں سے حملہ آور ہو گئی۔ جذبہ انتقام لیے ہوئے سب لوگ اپنے اپنے فریق کا دفاع کرنے لگے۔ لوگ نیند کی حالت میں ہی اپنے اپنے ہتھیاروں کی طرف بڑھے اورکہنے لگے: یہ کیا ہے؟ بصرہ والے کہنے لگے: اہل کوفہ نے ہم پر رات کے وقت ہلہ بول دیا اور ہم پر شب خون مار کر ہم سے دھوکا کیا اور وہ گمان کرنے لگے کہ اصحاب علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے سازش کی گئی۔ علی رضی اللہ عنہ تک جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے کہا: لوگوں کو کیا ہوا ہے۔ ان کے ساتھیوں نے کہا اہل بصرہ نے ہم پر شب خون مارا ہے۔ ان میں سے ہر جماعت اپنے ہتھیاروں کی طرف لپکی اور زرہ سمیت دیگر ہتھیار لے لیے۔‘‘[3]
وہ گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور کسی کو حقیقت معاملہ کا صحیح ادراک نہ تھا اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہو چکا تھا۔ جنگ کے الاؤ روشن ہو گئے اور دونوں لشکر ایک دوسرے کے بالمقابل ڈٹ گئے۔ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیس ہزار جنگجو تھے اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تقریباً تیس ہزار تھے۔
|