Maktaba Wahhabi

583 - 677
پھر ان کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پھر عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے، پھر یہ حادثہ پیش آیا جسے ان لوگوں نے پروان چڑھایا جو دنیا کے طلب گار تھے۔ اس شخص سے ان کے حسد کے نتیجے میں یہ کارروائی عمل میں لائی گئی جس پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا تھا اور اس فضیلت کے ساتھ انھیں حسد تھا جسے اللہ تعالیٰ نے عطا کرکے احسان کیا تھا۔ انھوں نے اسلام اور دیگر معاملات کو پیچھے کی طرف لوٹانے کی کوشش کی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلوں کو نافذ کرتا ہے۔ پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! توجہ سے سنو! میں کل واپس جا رہا ہوں تم بھی واپس چل پڑو اور جن لوگوں نے سیّدنا عثمان کے قتل میں کسی قسم کی معاونت کی وہ میرے ساتھ نہ آئیں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب یہ جملہ کہا تو ان لوگوں کے سرغنوں نے سر جوڑ لیے جیسے اشتر نخعی، شریح بن اوفی، عبداللہ بن سبا المعروف بابن السوداء وغیرہم جو تقریباً پچیس سو افراد کے قریب تھے اور ان میں ایک بھی صحابی نہ تھا۔ و للّٰہ الحمد۔ وہ کہنے لگے: یہ کیسی رائے ہے؟ اللہ کی قسم! جو لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل ڈھونڈ رہے ہیں ان سب سے علی رضی اللہ عنہ بہتر جانتا ہے اور وہی عمل کرنے کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اس نے جو کچھ کہا تم نے سن لیا، صبح سب لوگ تمہارا گھیراؤ کریں گے اور سب لوگ تمھیں پکڑنے کی کوشش کریں گے تو تمہارا کیا حال ہو گا جبکہ تم ان کی اکثریت کے مقابلے میں قلیل ہو؟ تو اشتر نے کہا: ہمیں شروع دن سے طلحہ اور زبیر کی رائے معلوم تھی، لیکن علی رضی اللہ عنہ کی رائے آج سے پہلے ہم نہیں جانتے تھے۔ اس نے اگر ان سے صلح کر لی ہے تو ہمارے خونوں پر صلح کی ہے۔ اگر معاملہ یہی ہے تو ہم علی کو بھی عثمان کے ساتھ ملا دیں گے تو لوگ ہماری ہاں میں ہاں ملائیں گے۔ ابن سوداء نے کہا: تیری رائے بہت بری ہے، اگر ہم اسے قتل کریں گے تو خود بھی قتل کر دئیے جائیں گے۔ کیونکہ ہم اے عثمان کے قاتلو! پچیس سو ہیں اور طلحہ و زبیر اور ان کے ساتھی پانچ ہزار ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ۔ حالانکہ وہ سب صرف تمھیں ہی تلاش کر رہے ہیں ۔ علباء بن ہیثم نے کہا: تم انھیں چھوڑو اور ہم مختلف علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ اپنا دفاع کریں گے۔ ابن سوداء نے کہا: تو نے بہت نامناسب بات کی ہے
Flag Counter