اس نیک عزم اور اس مبارک نیت کے ساتھ جب ان کا قافلہ عَیْن (چشمہ) حَوْأَب[1] پہنچا تو انھوں نے امن و سلامتی کے لیے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور واپسی کا ارادہ کیا۔ تاکہ وہ سارے معاملے سے یک بارگی علیحدہ ہو جائیں اور اس اندیشے سے کہ کہیں کوئی انھونی پیش نہ آ جائے۔
مسند احمد اور مستدرک حاکم میں روایت موجود ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب بنو عامر کے چشموں کے پاس رات کو پہنچیں تو کتوں کے بھونکنے کی آواز آئی۔ انھوں نے پوچھا، یہ کون سا چشمہ ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ عین حوأب ہے۔ آپ نے فرمایا: مجھے یقین ہے کہ میں واپس چلی جاؤں گی۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے فرمایا تھا: تم میں سے کسی ایک کا کیا حال ہو گا جب اس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے؟ تو زبیر رضی اللہ عنہ نے انھیں کہا: آپ واپس جانا چاہتی ہیں ؟ ممکن ہے اللہ عزوجل آپ کے ہاتھوں سے لوگوں کے درمیان صلح کرا دے۔[2]
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اصل معاملے کی حقیقت واضح کرتے ہوئے اور ہمارے لیے حقیقت امر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
’’تمام لوگ صلح پر متفق ہو گئے۔ جس نے اس اتفاق کو ناپسند کیا اس نے ناپسند کیا اور جو اس پر راضی ہوا وہ راضی ہوا۔ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف یہ خبر بتانے کے لیے قاصد بھیجا کہ وہ صلح کے لیے آئی ہیں ۔ دونوں گروہوں کے لوگ خوش ہو گئے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو جاہلیت کے زمانہ، اس کی شقاوتوں اور اس کے اعمالِ بد کا تذکرہ کیا، پھر اسلام کا تذکرہ کیا اور اہل اسلام کی باہمی الفت و اجتماعیت کی تعریف کی اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب لوگوں کو خلافت ابی بکر رضی اللہ عنہ پر جمع کیا۔
|