Maktaba Wahhabi

588 - 677
آپ پر غالب ہے اور میں یہ سمجھا کہ آپ اس کی مخالفت نہیں کریں گی۔ اس سے ان کی مراد ابن زبیر رضی ا للہ عنہما تھی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اگر تم مجھے روکتے تو میں ضرور رک جاتی۔ یعنی جنگ جمل والے دن جائے فتنہ کی طرف نہ جاتی۔‘‘[1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دیتیں کہ جو کچھ ہوا اللہ تبارک و تعالیٰ کی تقدیر کا حصہ تھا اور جب ان سے اس کی روانگی کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ فرماتیں : ’’تقدیر یہی تھی۔‘‘[2] یہ کردار ہو بہو آدم علیہ السلام کے کردار جیسا تھا کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام کو (جنت میں ممنوعہ پھل کھانے پر) ملامت کی تو آدم علیہ السلام نے تقدیر کا سہارا لیا۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی حجت بتلائی اور انھیں لاجواب کر دیا۔ گویا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روانگیٔ بصرہ کی تاویل نبی علیہ السلام کی اس تنبیہ پر عمل تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَاِنْ اَصَابَکَ شَیْئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ اَنِّی فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَکَذَا وَلٰکِنْ قُلْ قَدَرُ اللّٰہِ وَمَا شَآئَ فَعَلَ فَاِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ۔)) ’’اور اگر تمھیں کوئی مصیبت یا صدمہ وغیرہ پہنچے تو تم یہ نہ کہو: اگر میں ایسا کرتا تو یہ یہ نتیجہ نکلتا لیکن تم یہ کہو: اللہ نے تقدیر بنائی اور جو چاہا اس نے کیا: کیونکہ ’’لَوْ‘‘ (اگر) شیطان کے عمل کی راہیں کشادہ کرتا ہے۔‘‘[3] سیّدہ رضی اللہ عنہا کی جنگ جمل میں شرکت کی حقیقی منظرکشی ہے کہ جسے منافقوں نے بدلنا چاہا۔ اس کے ذریعے وہ ہماری امی جان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں جس سے وہ بری الذمہ ہیں ۔ حالانکہ وہ سفر بصرہ پر روانگی کے وقت اجتہاد کے نتیجہ میں نکلیں اور ان کے پاس ایک قدرے معقول عذر تھا۔ اگرچہ انھوں نے اجتہادی غلطی کی تاہم انھیں ایک اجر ملے گا اور ان کی خطا معاف ہو چکی ہے۔ بلکہ اجتہاد کی وجہ سے وہ ماجور ہیں ۔ تاہم علی رضی اللہ عنہ کو ان کے بارے میں علم تھا اور وہ ان کے مقام و مرتبہ کی قدر کرتے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل پیرا تھے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ((اِنَّہٗ سَیَکُوْنُ بَیْنَکَ وَ بَیْنَ عَائِشَۃَ اَمْرٌ))
Flag Counter