اس نے اپنے اس قول کے ذریعے کفر کیا: ﴿مَنْ اَنْبَاَکَ ہٰذَا ﴾ ’’تجھے یہ کس نے بتایا؟‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اور اس کی بہن کے بارے میں فرمایا: ﴿ إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ﴾ یعنی زاغت اور زیغ سے مراد کفر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ کو بتایا کہ اس کا باپ اور ابوبکر معاملے کو سنبھالیں گے۔ اس نے یہ راز عائشہ کو بتا دیا۔ اس نے اپنے باپ کو بتا دیا۔ اس نے اپنے ساتھی کو بتا دیا۔ وہ دونوں اس بات پر متفق ہو گئے کہ وہ اس میں جلدی کریں گے وہ دونوں (بیٹیاں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر پلائیں گی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں کے کرتوت کے بارے میں بتایا تو آپ نے ان دونوں کے قتل کا ارادہ کیا تب ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حلف اٹھائے[1] کہ انھوں نے ایسے نہیں کیا تب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا:
﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ اِِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo ﴾
(التحریم: ۷)
’’اے لوگو جنھوں نے کفر کیا ! آج بہانے مت بناؤ، تم صرف اسی کا بدلہ دیے جاؤ گے جو تم کیا کرتے تھے ۔‘‘
اس طرح رافضیوں نے ہماری امی جان رضی اللہ عنہا سے ایمان چھن جانے کا دعویٰ کیا اور ان پر کفر غلیظ کی پھبتی کسی ، اور اس ضمن میں اس روایت کا سہارا لیا جس کی کوئی سند نہیں اور اہل علم کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والے سے یہ امر مخفی نہیں ہو سکتا۔ صحیح احادیث سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ صنف نازک کی فطرت کے مطابق عورت جب اپنے خاوند سے محبت کرتی ہے تو اس کے دل میں اس کے بارے میں غیرت غالب آ جاتی ہے اور وہ غیرت اسے اس بات کی طرف لے جاتی ہے کہ جس کا مستحق اس کے علاوہ کوئی اور ہوتا ہے۔ خصوصاً جب معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو کہ جن کا وقار اور اکرام واجب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کی رعایت کرنا اعلیٰ قسم کی رعایت ہے اور ہر اس بات سے دُور رہنا ضروری ہوتا ہے جس سے ان کی عصمت پر حرف آنے کا اندیشہ ہو۔
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ہماری امی جان سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ حدیث روایت کی ہے جس میں مذکورہ راز کا قصہ بیان ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں : بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر ٹھہرتے اور ان کے پاس سے شہد پیتے تھے۔ چنانچہ میں نے حفصہ کے ساتھ مشورہ کیا کہ ہم دونوں
|