نور اللہ تستری اور صدر الدین شیرازی الحسینی[1] اور ان کے پیروکار کہتے ہیں کہ یہ راز علی کے وصی ہونے پر مشتمل تھا اور جس نے یہ افشاء کیا وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔[2]
روافض اس بہتان کی اس طرح تکمیل کرتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر رضی ا للہ عنہما کو اس راز کے بارے میں معلوم ہوا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ساتھ ملا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر پلا کر قتل کر دیا۔[3]
نیز اہل تشیع کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
﴿ إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ﴾ (التحریم: ۴)
’’اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو (تو بہتر ہے) کیونکہ یقیناً تمہارے دل (حق سے) ہٹ گئے ہیں اور اگر تم اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو تو یقیناً اللہ خود اس کا مدد گار ہے اور جبریل اور صالح مومن اور اس کے بعد تمام فرشتے مددگار ہیں ۔‘‘
دلالت کرتا ہے کہ تم دونوں کے دل ایمان سے خالی ہو کر کفر سے بھر گئے اور بیاضی کے بقول[4] انھوں نے یہ روایت حسین بن علوان اور دیلمی کے واسطے سے صادق علیہم السلام سے بیان کی ، وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ﴿ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا﴾(التحریم:۳) ’’اور جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے پوشیدہ طور پر کوئی بات کہی۔‘‘ وہ حفصہ تھیں ۔ صادق علیہ السلام نے کہا،
|