Maktaba Wahhabi

431 - 677
سکتا کہ ان کی بیعت معاویہ اور اہل شام نے کی تھی۔ جہاں تک امامیہ شیعہ کا تعلق ہے وہ علی علیہ السلام کے اس خط کو تقیہ پر محمول کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ معاویہ کو اپنے دل کی بات بتاتا اور اسے یہ کہتا کہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے مسلمانوں کا منصوص خلیفہ بلا فصل بن چکا ہوں ۔ اس طرح تو گزشتہ خلفاء ثلاثہ پر طعن و تشنیع کا دروازہ کھل جاتا اور اس کی اپنی بیعت جو اہل مدینہ نے کی تھی وہ فاسد ہو جاتی۔ ابن ابی الحدید کہتا ہے امامیہ کے اس دعویٰ کو اگر کسی دلیل سے مضبوط کیا جاتا تو اسی دعویٰ کو قبول کرنا ضروری تھا۔ لیکن وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں کہ علی علیہ السلام کا یہ خط تقیہ کے طور پر تھا اس کی کوئی دلیل نہیں اگرچہ وہ اپنے اصول کے مطابق ہی کہہ رہے ہوں ۔ ۱۔ ھ[1] بقول مصنّف: کتنی تعجب انگیز بات ہے یہ کون سا تقیہ ہے جو شیعوں کے بقول امیر المومنین سے ایسی بات کہلوا رہا ہے جو ان کے نزدیک کفر ہے یعنی ابوبکر اور عمر کی خلافت کے صحیح ہونے کا اصرار و اعلان لیکن یہ اور اس طرح کے دیگر اقوال شیعوں کے اس دعویٰ کے باطل ہونے کی دلیل ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ وصی اور خلیفہ بلافصل ہیں ۔ اہل روافض کے نزدیک یہ عقیدہ ان کے دین کا رکن عظیم بلکہ رکن اعظم ہے اور وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی بے شمار آیات ان کے اس دعویٰ کی تائید و تاکید میں اتریں کہ علی وصی رسول اللہ اور خلیفہ بلا فصل ہے لیکن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی آیات کو چھپا لیا۔ اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ کہا جو رضی نے ’’نہج البلاغۃ‘‘ میں روایت کیا کہ اس نے کسی صحابی رسول کے متعلق کہا: فلاں شخص کی آزمائشوں پر تعجب ہوتا ہے۔ بے شک اس نے کج رووں [2] کو سیدھا کر دیا اور دائمی مریضوں [3] کا علاج کیا اور سنت کو قائم کیا اور فتنوں کا قلع قمع کیا۔ وہ جب گیا تو اس کا لباس بے داغ تھا اس کے گناہ قلیل تھے۔ اس نے ہمیشہ بھلائی کے کام کیے اور فتنہ و فساد پر ہمیشہ غلبہ پا لیا۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و تقویٰ کا حق ادا کر دیا۔ وہ چلا گیا اور لوگوں کو وادیوں اور گھاٹیوں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ گیا۔ ابن ابی الحدید لکھتا ہے : ’’رضا کا ’’فلاں ‘‘ کہنا عمر بن خطاب سے شدید بغض کی وجہ سے ہے ، وہ ان
Flag Counter