Maktaba Wahhabi

430 - 677
ہوئے دیکھا تھا۔ اسے ساجی اور ابن عدی نے روایت کیا۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا: ’’ائمہ جرح کا اس پر اجماع ہے کہ اس (ہارون عبدی) کی روایت کردہ احادیث ضعیف ہوتی ہیں ۔‘‘[1] مجموعی طور پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت صحیح ہونے پر اجماع ہے۔ اس میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ بلکہ رافضی لوگ ایسی روایات نقل کرتے ہیں جن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنی امامت کے صحیح ہونے کی یہی دلیل بیان کی کہ میں اسی طریقہ سے خلیفہ بنا ہوں جس طریقہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تھے جس طرح رضی ’’نہج البلاغۃ‘‘ میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے جو خط معاویہ کی طرف لکھا اس میں یہ جملے بھی تھے کہ میری بیعت انھیں لوگوں نے انہی چیزوں پر کی جنھوں نے ابوبکر، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی ۔ لہٰذا یہاں کسی حاضر و موجود شخص کو میری بیعت نہ کرنے کا اختیار نہیں اور نہ ہی کسی غیر حاضر شخص کو بیعت ردّ کرنے کا اختیار ہے۔ کیونکہ شوریٰ مہاجروں اور انصاریوں پر مشتمل ہے۔ اگر وہ کسی آدمی پر اکٹھے ہو جائیں اور اسے امام کہنے لگیں تو اسی میں اللہ کی رضا ہے اور اگر کوئی باغی کسی عیب یا بدعت کا دعویٰ کر کے بغاوت کر دے تو تمام مہاجرین و انصار اسے اس کی بغاوت سے واپس لائیں گے اور اگر وہ انکار کر دے تو اس کا مومنوں کی راہ سے ہٹ جانے کی وجہ سے اس سے قتال کریں گے اور اللہ تعالیٰ اسے اسی طرف پھیر دے گا جس طرف وہ خود پھر گیا۔ ۱۔ ھ اسی لیے ابن ابی الحدید نے ’’شرح نہج البلاغۃ‘‘ میں اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے.... اگرچہ وہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم کرنے میں سب شیعوں سے آگے ہوتا ہے.... وہ لکھتا ہے تمھیں علم ہونا چاہیے کہ امام چننے کے طریقے کی وضاحت کے لیے یہ فصل بالکل صراحت کرتی ہے جیسا کہ ہمارے علماء و ائمہ بیان کرتے ہیں ، کیونکہ وہ (علی علیہ السلام ) اپنی بیعت کے لیے انہی اہل الرائے اور صاحب مشورہ کے اتفاق کو معاویہ کے سامنے دلیل بنا رہا ہے، جنھوں نے ابوبکر کی بیعت کی تھی اور تمام مسلمانوں کی بیعت اجتماعی طور پر کرنے کو دلیل نہیں بنایا چونکہ ابوبکر کی بیعت میں بھی تمام مسلمانوں کی بیعت کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا، اس لیے کہ ابتدائے امر میں سعد بن عبادہ اور ان کی اولاد و اقارب نے بیعت نہ کی اس طرح علی علیہ السلام اور بنو ہاشم نے ابوبکر کی بیعت نہ کی تھی اور انھوں نے توقف و تامل کیا۔ تو یہ صحیح چناؤ کی دلیل ہے اور امام منتخب کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ چنانچہ علی کی امامت پر یہ اعتراض نہیں کیا جا
Flag Counter