Maktaba Wahhabi

335 - 677
چبانے میں زیادہ سہل ہے اور گلے سے جلدی نیچے اترتا ہے اور معدے میں جلدی ہضم ہوتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مثال ثرید سے بیان کی تاکہ معلوم ہو جائے کہ انھیں حسن خلقت کے ساتھ حسن اخلاق، حسن حدیث، شیریں زبان، فصاحت و بلاغت، عمدہ فطرت، رائے کی پختگی، عقل مفکر، خاوند کو محبوب اور خاوند کی خدمت گزاری، ہم کلامی اور خاوند کی ان کے ساتھ انسیت اور اس کی بات کی طرف دھیان دینا اور ان جیسے دیگر معانی اس میں اکٹھے ہو گئے ہیں اور قارئین کے لیے یہی معنی ہی کافی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ کچھ سمجھ لیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی دوسری بیویوں نے نہیں سمجھا اور آپ سے ایسی روایات کیں کہ جو دوسری عورتوں نے تو کیا مردوں نے بھی وہ احادیث روایت نہ کیں ۔‘‘[1] ۳۶۔ اسماعیل حقی الصوفی[2] رحمہ اللہ (ت: ۱۱۲۷ ہجری): فرماتے ہیں : ’’بے شک اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے لیے وہی آزمائش بھیجتا ہے جو لطف حقیقی کا سبب ہو۔ اگرچہ وہ بظاہر قہر و جبر کی صورت میں ہو .... ان کا اصل مقصد اہل ایمان کی تادیب، تہذیب، ان کے درجات کو بلند کرنا اور ان کی قربت الٰہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے واقعہ افک اگرچہ وہ مصیبت کی صورت میں تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ماں باپ اور سب اہل ایمان کے لیے مفید اور سبق آموز ثابت ہوا۔ ابتدا میں تمام صحابہ کے لیے خصوصی آزمائش اور امتحان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ لیکن اپنے انجام کے اعتبار سے تربیت اور تہذیب نفوس کے لیے عبرت انگیز اور بے مثال تھا۔ کیونکہ آزمائش انبیاء اور اولیاء پر ہی آتی ہے۔ جیسے سونے کے لیے جلتا ہوا انگارہ ہوتا ہے کہ اس کی میل کچیل نکال کر اسے صاف شفاف بنا دیتا ہے۔ جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اَشَدَّ النَّاسِ بَلَائً اَ لْاَنْبِیَائُ ثُمَّ الْاَوْلِیَائُ، ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ))
Flag Counter