امام نووی فرماتے ہیں :
’’اس حدیث میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی واضح فضیلت موجود ہے۔‘‘[1]
۱۰:.... یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب آیت تخییر نازل ہوئی:
﴿ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا () وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللّٰهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ (الاحزاب: ۲۸۔۲۹)
’’اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ سامان دے دوں اورتمھیں رخصت کردوں ، اچھے طریقے سے رخصت کرنا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخری گھر کا ارادہ رکھتی ہو تو بے شک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حکم سنایا اور آپ نے ان کے والدین کی موافقت کی بھی اسے مہلت دی، تو سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والدین سے مشورہ کرنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کر لیا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا مجھ سے کی اور فرمایا: ’’میں تمیں ایک کام بتانا چاہتا ہوں تو تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنے والدین سے مشورہ کرنے تک جواب کی جلدی نہ کرو۔ وہ کہتی ہیں : آپ کو یقیناً علم تھا کہ میرے والدین کبھی مجھے آپ کی جدائی کا مشورہ نہ دیں گے۔ آپ نے پھر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ .... عَظِیْمًاo ﴾ (الاحزاب: ۲۸۔۲۹) ’’اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ سامان دے دوں اورتمھیں رخصت کردوں ، اچھے طریقے سے رخصت کرنا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخری گھر کا ارادہ رکھتی ہو تو بے شک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
آپ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: کیا میں اس معاملے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ؟ پس
|