Maktaba Wahhabi

245 - 677
سمجھتی ہوں ۔ میں انھیں دیکھ رہی ہوں کہ انھوں نے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی۔[1] ۹۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو کس قدر اہتمام کے ساتھ احادیث یاد ہیں اور ان کی صحیح و سالم روایتِ احادیث کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی روایت کردہ احادیث سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے پیش کرتے تاکہ انھیں صحیح و غیر صحیح کا امتیاز ہو جائے۔ چنانچہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرے کے پاس آتے اور پکارتے: ’’اے کمرے کی مالکن! ذرا غور سے سنیں ۔‘‘[2] علامہ نووی رحمہ اللہ ان کے ان الفاظ ((یَا رَبَّۃَ الْحُجْرَۃِ)) کی تشریح میں لکھتے ہیں : ’’ ان کی مراد سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں اور وہ چاہتے کہ اگر وہ اثبات میں جواب دیں تو ان کی احادیث کو مزید تقویت مل جائے گی، خصوصاً جب وہ ان کی بات سن کر خاموش ہو جائیں اور ان کا انکار نہ کریں ۔ البتہ ایک ہی مجلس میں کثرت کے خوف سے وہ ایسا نہ کر پاتے کہ کہیں اس کی وجہ سے وہ سہو و نسیان کا شکار نہ ہو جائیں ۔[3] اسی طرح جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا آپس میں کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جاتا تو وہ سیّدہ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سے اس کی تصدیق کراتے۔ جیسا کہ صحیحین میں روایت ہے کہ سیّدنا ابن عمر رضی ا للہ عنہما سے کہا گیا بے شک سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((مَنْ تَبِعَ جَنَازَۃً فَلَہٗ قِیْرَاطٌ[4] مِنَ الْاَجْرِ)) ’’جو جنازہ کے پیچھے جائے اسے اجر میں سے ایک قیراط ملے گا۔ ‘‘ سیّدنا ابن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہمیں بہت زیادہ احادیث سناتے ہیں ۔ انھوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیج کر ان سے پوچھا تو انھوں نے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔ یہ سن کر سیّدنا ابن عمر رضی ا للہ عنہما کہنے لگے، بلاشبہ ہم نے بے شمار قیراط ضائع کر دئیے۔[5]
Flag Counter