کی اللہ تعالیٰ مغفرت کرے ، اس نے جھوٹ نہیں بولا لیکن بھول گیا یا اس سے خطا ہو گئی ہے ۔ بات یہ ہے کہ ایک یہودی عورت پر لوگ رو رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنَّہُمْ لَیَبْکُوْنَ عَلَیْہَا، وَ اِنَّہَا لَتُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِہَا)) [1]
’’وہ تو اس پر رو رہے ہیں اور اسے اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔‘‘
۸۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب حدیث کی سمجھ نہ آتی تو وہ اس کے روایت کرنے والے کا امتحان لیتیں ۔ اگر وہ پورے وثوق سے بیان کر دیتا تو آپ اسے لے لیتیں اور ان کے اسی اسلوب نے بعد میں آنے والے محدثین کے لیے راویانِ حدیث پر نقد و جرح کے اصول وضع کرنے میں آسانی مہیا کی۔
چنانچہ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مجھے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے بھانجے! مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ سیّدنا عمرو رضی اللہ عنہ حج کے لیے ہمارے پاس آنے والے ہیں ، تم جانا اور ان سے سوالات کرنا، کیونکہ ان کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بے شمار علم ہے۔‘‘
عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں ان سے ملا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انھوں نے جو روایات کی تھیں ان کے متعلق پوچھا۔ انھوں نے جو کچھ بیان کیا ان میں یہ بات بھی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یکبارگی لوگوں سے علم نہیں اُچکے گا بلکہ وہ علماء کو فوت کر دے گا۔ تو ان کے ساتھ علم بھی اٹھ جائے گا اور لوگوں میں جاہل سردار رہ جائیں گے۔ وہ علم کے بغیر ان کو فتوے دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ عروہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث بیان کی تو ان پر یہ بہت گراں گزری اور انھوں نے اس کے حدیث ہونے کو تسلیم نہیں کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا واقعی انھوں نے تجھ سے یہ بیان کیا کہ انھوں نے اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟
جب اگلے سال حج کا موسم آیا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا بے شک ابن عمرو رضی اللہ عنہ آ چکے ہیں تم جاؤ اور ان سے ملو اور دوبارہ پھر اس حدیث کے متعلق ان سے پوچھو۔ جو انھوں نے علم کے ضمن میں روایت کی۔
عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں ان سے ملااور پوچھا تو انھوں نے ویسے ہی مجھے حدیث سنائی جیسے گزشتہ سال سنائی تھی۔
عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ واقعہ سنایا تو وہ پکار اٹھیں میں اسے سچا
|