اسی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو درایت نصوص (چھان پھٹک) کا بھی خصوصی ملکہ تھا۔ بلاشک و شبہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت صرف کثرت روایت ہی میں نہیں بلکہ وہ خصوصیت جو انھیں دوسرے صحابہ سے ممتاز کرتی ہے وہ مطالعہ کی گہرائی ، باریک بینی اور دقیق فہم ہے نیز فقہ المسائل اور استنباط میں ان کی قوت اجتہاد اور ان کا عمیق ادراک ہے۔
درج بالا خصوصیات کے ساتھ ساتھ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی ایک اور منفرد خصوصیت بھی ہے کہ وہ نصوص سے مستنبط حکم ہی بیان نہیں کرتیں بلکہ وہ اس حکم کی علّتیں ، اس کی حکمتیں بھی بیان کرتی ہیں اور اس کی مصلحتوں کی تشریح بھی کرتی ہیں ۔ ان سے کوئی بھی شرعی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ اس طرح جواب دیتیں کہ سائل مطمئن ہو جاتا اور اس کے ذہن میں وہ حکم شرعی راسخ ہوتا اور وہ اس حکم کی مشروعیت پر مطمئن ہو جاتا۔ اسے سمجھنے کے لیے سب سے واضح دلیل غسل جمعہ کا مسئلہ ہے۔
صحیح بخاری کی سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما ، سیّدنا ابو سعید خدری[1] رضی اللہ عنہ اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی متواتر درج ذیل تین روایات درج کی جاتی ہیں تاکہ ان کے درمیان فرق واضح ہو سکے۔
۱۔سیّدنا ابن عمر رضی ا للہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((مَنْ جَائَ مِنْکُمُ الْجُمُعَۃَ فَلْیَغْتَسِلْ)) [2]
’’تم میں سے جو جمعہ کے لیے آئے تو اسے غسل کرنا چاہیے۔‘‘
۲۔سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((غُسْلُ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ)) [3]
’’ہر بالغ پر جمعہ کے دن کا غسل واجب ہے۔‘‘
۳۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے لوگ اپنے اپنے گھروں اور مدینہ کی بالائی جانب سے جمعہ کے دن باری باری آتے تھے وہ گرد و غبار میں چل کر آتے تھے۔ ان کے بدن سے گردوغبار اور پسینے کی وجہ
|