Maktaba Wahhabi

60 - 548
(( لَا یَذْھَبُ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُ حَتّٰی تُعْبَدَ اللَّاتُ وَالْعُزّٰی ))(رواہ مسلم) [1] [قیامت قائم ہونے سے پہلے لات و عزیٰ کی عبادت کی جائے گی] اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آخری زمانے میں قدیم شرک بھی رائج ہو گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جس طرح مسلمان لوگ اپنے نبی، ولی، امام، شہیدوں اور پیروں کے ساتھ شرک کا معاملہ کرتے ہیں، اسی طرح قدیم شرک بھی پھیل رہا ہے اور کلمہ گو مسلمان کافروں کے بتوں کو بھی مانتے ہیں اور ان کی رسموں پر چلتے ہیں، جیسے برہمن سے تقدیر کا حال پوچھنا، بدشگونی لینا، ساعت ماننا، سیتلا مسانی (چیچک اور خسرے کی بیماریوں کی دیویاں) پوجنا، ہنومان، لونا چماری، کلوابیر کی دہائی دینا، ہولی اور دیوالی کا تہوار کرنا، نو روز اور مہر جان کی خوشی کرنا، قمر در عقرب (چاند کے برج عقرب میں آنے کا نامبارک خیال کیا جانے والا وقت) اور تحت الشعاع (قمری مہینے کے منحوس سمجھنے والے آخری دو تین دن) کا اعتبار کرنا، جو سب ہنود و مجوس کی رسمیں ہیں اور مسلمانوں میں رواج پا گئی ہیں۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر شرک کی راہ اسی طرح کھلے گی کہ وہ قرآن و حدیث کو چھوڑ کر باپ دادوں اور پیروں اماموں کی رسموں کے پیچھے لگ جائیں گے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی مرفوع حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا میں آنے اور دجال کے ہلاک ہوجانے کے بعد شام کی طرف سے ٹھنڈی ہوا چلے گی تو جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا، اس کو قبض کر لے گی، پھر برے لوگ ہی دنیا میں باقی رہ جائیں گے جو بے وقوفی میں پرندوں جیسے اور پھاڑ کھانے میں درندوں جیسے ہوں گے، انھیں اچھے برے کی کچھ تمیز نہ ہو گی۔ شیطان بھیس بدل کر ان کے پاس آئے گا اور کہے گا: تم کو شرم نہیں آتی کہ تم بے دین ہو، وہ پوچھیں گے تو ہمیں کیا بتاتا ہے؟ وہ کہے گا کہ تم استھانوں (آستانوں) کو پوجو۔ وہ ایسا کریں گے تو ان کی گزران عیش و عشرت کے ساتھ ہو گی اور انھیں بہت سا رزق میسر آئے گا۔ (رواہ مسلم) [2] معلوم ہوا کہ آدمی کتنا ہی گناہوں میں ڈوب جائے، پورا بے شرم بن جائے، پرایا مال کھا جانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے اور اس میں کچھ بھلائی برائی نہ سمجھے، پھر بھی شرک کرنے سے اور اللہ کے سوا اور
Flag Counter