Maktaba Wahhabi

572 - 548
دن پر یقین لائے، اور تقدیر کی بھلائی برائی پر ایمان لائے] یہ ایمان لانا دل کا عمل ہے، جس طرح اسلام لانا جوارح کا فعل تھا۔ یہ فعل بھی ایسا ہی ہے جس کا انکار کفر ہوتا ہے۔ قرآن میں جابجا ایمان کے مقابلے میں کفر اور مومن کے مقابلے میں کافر کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر جس طرح کبائرِ ظاہرہ عملِ جوارح کے مفسد ہوتے ہیں، اسی طرح کبائرِ باطنہ فعل قلب کے مفسد ہیں۔ اہلِ علم نے ان کبائرِ باطنہ کی تعداد ساٹھ کبیرہ گناہوں تک بتائی ہے، جس طرح کبائرِ ظاہرہ کو چار سو سے زیادہ شمار کیا ہے، پس جو کوئی ایمان نہیں رکھتا، وہ مسلمان نہیں ہوتا۔ پھر جب اس کا اسلام ہی ثابت نہ ہوا تو لا محالہ وہ مستحق نار ٹھہرے گا۔ اب ضرورت ہے کہ اسلام کے ہمراہ ایمان بھی درست کریں، یعنی ظاہر وباطن دونوں سے پکا موحد اور عامل صالح بنے، تب کہیں نجات کی امید قوی ہو سکتی ہے، وگرنہ ساری تگ و دو بے کار ہے۔ احسان: دینِ حق کا تیسرا جز احسان ہے۔ اس کی تعریف حدیث مذکور میں یوں آئی ہے: (( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ )) یعنی عبادت الٰہی کے وقت یوں سمجھے گویا وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے، پھر اگر یہ جانے کہ اللہ کو نہیں دیکھتا تو اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ جبریل علیہ السلام کی یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مزید الفاظ کے ساتھ متفق علیہ مروی ہے، ایسی حدیث سارے اقسامِ حدیث میں اَصح و اَعلا ہوتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام وایمان کے ہمراہ اخلاصِ عبادت بھی ضروری ہے، اگر یہ اخلاص پیدا نہ ہوا، بلکہ اس کی ضد ہوئی، یعنی ریا و سمعہ کے لیے عبادت ہوئی تو پھر وہ مشرک کا مشرک ہی رہا اور سب کیا دھرا اکارت گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریا کو شرکِ اصغر اور شرکِ سرائر فرمایا ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، اکثر لوگ جو اس زمانۂ آخر میں مسلمانی، ایمانداری اور درویشی کا دعوی کرتے ہیں، جب ان کی حالت حدیثِ جبریل علیہ السلام سے ملائی جاتی ہے تو وہ اس پر پورا نہیں اترتے۔ کوئی محض زبان سے کلمہ گو ہے، لیکن اس اقرار کے ساتھ افعالِ شرک بھی بجا لاتا ہے، پھر اگر شرک ظاہر سے بچ کر نماز، روزہ، حج اور زکات ادا کرتا ہے تو اس کے ایمان میں ایک طر ح کا خلل ہوتا ہے۔ کسی کو
Flag Counter