Maktaba Wahhabi

337 - 548
اس توحید میں شرک کیا کرتے ہیں اور اللہ کے بہت سے ساجھی ٹھہراتے ہیں، اسی لیے جتنے رسول آئے، وہ اسی کام کے لیے بھیجے گئے کہ توحیدِ ربوبیت کو ثابت ومقرر رکھنے کے ساتھ ساتھ توحیدِ عبادت کی طرف مشرکوں کو دعوت دیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 1۔ ﴿ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ﴾ [إبراہیم: ۱۰] [کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہے؟] 2۔﴿ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ﴾ [الفاطر: ۳] [کیا اللہ کے سوا کوئی اور پیدا کرنے والا ہے ؟] غرض کہ پیغمبروں کا آنا اسی توحیدِ عبادت کے اثبات کے لیے تھا، نہ کہ یہ بتانے کے لیے کہ کائنات کا خالق اللہ ہے، کیونکہ یہ مسئلہ ساری امتوں میں اوّل سے آخر تک اجماعی رہا ہے، اس میں کسی امت نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی دیوانہ اور پاگل ہو کر اس میں اختلاف کرے۔ معلوم ہوا کہ مشرکوں نے جتنے معبود ٹھہرائے ہیں، جیسے بت اور مسیح علیہ السلام کی صلیب وتصاویر یا جن و شیاطین وغیرہ، ان کو وہ اللہ کا شریک اس لیے نہیں بناتے ہیں کہ یہ کسی شے کے خالق، رازق اور پالنہار ہیں، بلکہ وہ اس لیے ان کو معبود مانتے ہیں کہ وہ ان کی رسائی اللہ تک کرا دیں گے، اللہ کا مقرب بنادیں گے، اللہ کے یہاں سفارشی ہوں گے۔ ان کفریہ باتوں کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں۔ اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کو صرف اپنا سفارشی اور اللہ کا نزدیکی جانتے ہیں، یہی ان کا شرک ہے۔ ان کے جواب میں اللہ نے بتا دیا ہے کہ اللہ کے پاس کوئی کسی کی سفارش اس کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا ہے۔ وہ تو خود ہی در ماندہ وعاجز ہیں، ان کی سفارش کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اسی وجہ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ تمام عبادتوں اور نیک کاموں کی بنیاد اور جڑ وہ توحید ہے جو کلمۂ توحید ’’لا إلٰہ إلا اللہ‘‘ سے سمجھی جاتی ہے۔ اس کلمے میں لفظ رب یا خالق یا رازق کا استعمال نہیں ہوا ہے، بلکہ اسم جلالہ کا ذکر کیا گیا ہے، جو معبود کے معنی میں ہے۔ یہ کلمہ کہنے سے مراد تہِ دل سے اس کے معنی کا اعتقاد رکھنا ہے، صرف زبان سے اتنا بول دینا کافی نہیں ہے۔ توحید کی حقیقت: امام مقریزی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’ہر چیزکا رب و مالک اور معبود اللہ ہے۔ رب اسے کہتے ہیں جو بندوں کو عدم سے وجود
Flag Counter